عرصئہ مستہ و رندی کے لطائف پائے

water

water

عرصئہ مستہ و رندی کے لطائف پائے
اپنی شب خیز جوانی کے معارف پائے

رات دن غرق مئے ناب تعیش ہو کر
دوستو بحرِ تغافل کے وظائف پائے

بام پر لائی ہے کس کس کو کھنک سکوں کی
چاہتا کون تھا تقدیرِ طوائف پائے

مستقل اوج پہ بس گردشِ پستی دیکھی
یوں تو ہر قوم نے عظمت کے صحائف پائے

حکمرانی کا جو کرتے ہیں اچانک اعلان
سب ثنا خواں یہی کہتے ہیں کہ ہاتف پائے

کس کو معلوم ہے ہو جائیگا نیلام وطن
پھولے پھرتے ہیں محافظ کہ مصارف پائے

جا بسے دور کے باغوں میںپرندے کتنے
ترکے میں ترک چمن ہی کے مواقف پائے

گردشِ خانئہ متروک میںمصروف سہی
لذتِ یادِ صنم غمزدہ طائف پائے

ڈاکٹر سعادت سعید