روز اول سے داستان عروج و زوال فرد، خاندان، قبیلے اور قوم سے منسلک رہی ہے۔ خواہ وہ قوم نوح علیہ السلام ہو، قوم عاد وثمود ہو، اصحاب مدین ہو، قوم لوط ہو، قوم بنی اسرائیل ہو یا امت مسلمہ۔
پہلے ہر امت کیلئے ایک ہادی و رہنما ہدایت (کتاب و صحائف) دے کر بھیجا گیا۔ پھر اس امت کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دی گئی اور اختیار دیا گیا کہ وہ امت ہدایت کا راستہ اختیار کرنے یا گمراہی کا۔
پھر جیسے ہی وہ امت سیدھے راستے کو اپناتی ویسے ہی اسے عروج و کامیابی نصیب ہوتی اور اگر گمراہی و نافرمانی کا راستہ اختیار کرتی تو ایک مہلت یا مقررہ مدت دیدی جاتی تاکہ وہ توبہ کر کے کسی بھی وقت اپنے اوپر نازل ہونیوالے زوال و عذاب کو ٹال لیں جیسے قوم یونس علیہ السلام کیساتھ ہوا۔
toofan e Nooh ki jhalak
ورنہ ایسی امتوں و بستیوں کو تباہ و برباد کر کے انکا نام و نشان تک ہی مٹا دیا جاتا جیسے قوم نوح علیہ السلام پر انکی نافرمانی کے سبب طوفان نوح آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔
قوم عاد و ثمود کو تیز چنگھاڑ اور سات دن اور رات کی منحوس آندھی نے بتاہ و برباد کر کے دکھدیا۔
اصحاب مدین کو زلزلے سے نیست و نابود کر دیا گیا۔
قوم لوط علیہ السلام کو اوندھے منہ دفنا دیا گیا۔
بنی اسرائیل پر ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون وغیرہ کے عذاب نازل ہوتے رہے اور سامان عبرت، عبرت حاصل کرنے والوں کو مہیا کرتے رہے۔
اب رہی امت مسلمہ تو اس کی طرف دنیا کا سب سے بڑا ہادی و رہبر دنیا کی سب سے بڑی اور تاقیامت رہنے والی ہدایت ( قرآن مجید ) لیکر آیا جس پر ( قرآن و سنت) عمل پیرا ہو کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا و آخرت میں عروج و کامیابیوں کا بدوؤں نے نہ صرف روم و ایران کو بلکہ ایک دنیا کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لیا۔
قلیل عرصے میں اور کم مائیگی کے ساتھ ایسی شاندار فتوحات حاصل کیں کہ دنیا میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
افسوس آج اگر یہ امت زوال پذیر ہوئی تو ایسی کہ نجات کی ساری راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان، 52 سے زائد اسلامی ممالک تیل و گرم پانی کے وسائل، ایٹمی ٹیکنالوجی و جدید اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود جدھر نظر دوڑائیں ہر طرف مسلمان ہی لڑتے، مرتے، جھگڑتے اور روتے نظر آتے ہیں۔
ایک مسلمان کی جان کی قیمت بکری سے بھی حقیر نظر آتی ہے۔ بھوک، افلاس، بدامنی، دہشت، خانہ جنگی نے ہر طرف پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ یہ ذلت و رسوائی امت مسلمہ کا مقدر ہی کیوں ہے اور آخر کب تک رہیگی اور کون کریگا ایسا عظیم الشان کام؟
ایسا عظیم الشان کام وہی انجام دے سکتا ہے جو” قاری نظر آیا ہے حقیقت میں ہے قرآن” کی عملی تصویر ہو گا۔
سیدنا امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ وقت ہوتے ہوئے اپنے بیٹے کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ پھر جرم کا ارتکاب ثابت ہونے پر اسے کوئی استثنیٰ نہیں دیا گیا کہ وہ امیر المومنین کا بیٹا ہے بلکہ اسے دوسروں سے بھی کڑی سزا دی گئی اور اسے 100 کوڑے لگوانے کا حکم صادر کیا گیا۔ 80 کوڑے کھا کر بیٹا مر جاتا ہے تو باپ باقی کے 20 کوڑے قبر پر لگواتا ہے۔
عروج تو وہاں آیا تھا جہاں بھرے مجمع میں ایک شخص اٹھ کر امیر المومنین سے دو چادروں کا حساب لیتا ہے اور امیر المومنین سب کے سامنے اضافی چادر کیلئے جوابدہ ہوتے ہیں۔
ہادی برحق حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ( قرآن مجید ) کے ذریعے سے بہت سے قوموں ( عمل کرنے والی) کو عروج دیگا اور بہت سی دوسری قوموں کو ( عمل نہ کرنے والی ) کو زوال دیگا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے ہوس پرست حکمرانوں کو ہم اپنے اوپر مسلط کیوں کرتے ہیں؟ صرف ذات برادری یا حقیر سے فائدے کی خاطر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے؟
ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ” جب کسی قوم کے گناہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو ان پر اللہ کیطرف سے ایسے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں جو انہیں سخت سزائیں دیتے ہیں۔ پھر اس قوم کے نیک لوگ بھی اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں تو وہ قبول نہیں کی جاتیں۔ ”
اسکا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے دامن کو گناہوں سے پاک کرنا ہوگا جیسے شرک، بدعت، مادہ پرستی، خودغرضی، کرپشن، لادینیت، برائی اور بے حیائی کے سب گناہوں سے دلی توبہ کر کے ” امر بالمعروف و نہی عن المنکر ” کو اپنانا چاہیے۔
ahram misr
جب ہماری انفرادی زندگیاں گناہوں سے پاک اور پرامن ہوںگی تو لازمی طور پر اجتماعی یا قومی سطح پر بھی امن و سکون، ترقی و عروج ہو گا ورنہ قوم نوح، قوم عاد و ثمود، اصھاب مدین اور دیگر اقوام کے عروج و زوال کی داستانیں اور باقیات کھنڈرات کے طور پر سامان عبرت مہیا کرتے ہیں۔
ویسے بھی اللہ رب العزت نے کامیابی و عروج حاصل کرنے کے لیے جو اصول یا شرط رکھی ہے وہ ” قرآن و سنت ” پر عمل ہے۔
اسی لیے ارشاد فرمایا کہ ” جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریگا درحقیقت وہ کامیابی حاصل کریگا( دنیا و آخرت کا عروج ) اب ہے کوئی جو سوچے سمجھے؟
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں دریافت کیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹک پیدا کرے اور تو اس بات کو برا سمجھے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔ ( مسلم)