عشق اور موت (ماخو ذ از ٹینی سن)
Posted on July 22, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
ishq aur maut
سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی
تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی
کہیں مہر کو تاج زر مل رہا تھا
عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے
ستاروں کو تعلیم تابندگی تھی
کہیں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے
کہیں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی
فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا
ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تشنہ کام مے بے خودی تھی
اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی
کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی
زمیں کو تھا دعوی کہ میں آسماں ہوں
مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہوں
غرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا
کہ نظارگی ہو سراپا نظارا
ملک آزماتے تھے پرواز اپنی
جبینوں سے نور ازل آشکارا
فرشتہ تھا اک ، عشق تھا نام جس کا
کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا
فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا
ملک کا ملک اور پارے کا پارا
پے سیر فردوس کو جا رہا تھا
قضا سے ملا راہ میں وہ قضا را
یہ پوچھا ترا نام کیا ، کام کیا ہے
نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا
ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ
اجل ہوں ، مرا کام ہے آشکارا
اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے
پیام فنا ہے اسی کا اشارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتش ہے میں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو
وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا!
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
علامہ محمد اقبال