یو اے میں قلندرانِ اقبال نے فکرِ اقبال کے حوالے سے شعرو ادب کے ایک نئے انداز کی بنیاد رکھی ہے جس کا بنیادی مقصد اقبال کے فلسفے ، اس کے نظریات اور شاعری کو عام آدمی تک پہنچا نا اور آگاہ کرنا ہے تا کہ علامہ اقبال کی آفاقی سوچ کی روشن قندیلیں معاشرے کے اندر اونچ نیچ اور عدمِ مساوات کے اندھیروں کو ختم کر کے تکریمِ انسانیت، مساوات اور محبت و الفت کے لافانی جذبوں کو زبان عطا کر سکیں اور ایک پر امن اور خوشخال معاشرے کی مضبوط بنیا دیں اٹھا نے میں ممدو معاون بن سکیں۔ اپنے اسی پرواگرام اور مقاصد میں حقیقتوں کے رنگ بھرنے کیلئے ٢٩ جولائی کو مقامی ہوٹل میں محفلِ شعرو سخن کا اہتمام کیا گیا ۔ قلندرانِ اقبال کی دو ماہ کے اندر یہ تیسری نشست تھی جس میں اہلِ دانش اور جویانِ ِ علم کی بے تابانہ شرکت نے ادبی نشستوں کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ۔ شعرو سخن کی یہ نشستیں ادب کی ترویج اور اس کی مقبولیت کا زبر دست باعث بن رہی ہیں اور لوگوں میں ادب کے حوالے سے ایک نئے رحجان کو پروان چڑھا نے میں بڑا اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ قلندرانِ اقبال کی اس ادبی نشست کے دو حصے تھے۔ پہلے حصے میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا جبکہ دوسرے حصے میں پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے بصیرت افروز خطبہ نے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔٢٩ جو لائی بروز جمعہ کو منعقد ہونے والی ادبی نشست کا موضوع تھا علامہ اقبال کا تصورِ خودی اور پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے جس خوبصورت اور منفرد ا نداز میں تصورِ خودی پر روشنی ڈالی وہ سب کیلئے حیران کن بھی تھی اور معلوماتی بھی تھی۔۔۔۔ ممبران آرگنائزنگ کمیٹی ۔۔۔طارق حسین بٹ۔۔۔ڈاکٹر صبا حت عاصم واسطی۔۔۔ شیخ واحد حسن۔۔۔عبدالسلام عاصم۔۔۔اس ادبی نشست میں یو اے ای کے تمام اہم شعرا نے شرکت کر کے اقبال سے اپنی محبت کی گواہی کو ثبت کیا۔ تمام شعرا کااس ادبی نشست میں شمولیت پر ذوق و شوق دیدنی تھا۔ تمام سخنور ایک ایسے شاعر کیلئے جمع ہو ئے تھے جس نے اپنی شاعری سے تاریخ کا رخ موڑا تھا۔مشاعرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پاکستان سے اردو ادب کے تین بڑے نام خصو صی طور پر شریک ہوئے اور مشاعرے کو نیا وقار، مقام اور افق عطا کیا۔پروفیسر مشکور حسین یاد اردو ادب کا ایک بہت بڑا نام جو پچھلی نصف صدی سے اردو ادب کی آبیاری کا فر یضہ سر انجام دے رہے ہیںصدرِ مجلس تھے۔ محترم سعود عثمانی اردو ادب کا ایک اور معتبر نام اس ادبی نشست کے مہمانِ خصوصی تھے جبکہ صحا فتی دنیا میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے نوائے وقت کے ایڈیٹر اور مشہور کالم نگار سعیدآ سی سپیشل گیسٹ کی حیثیت سے رو نق ِمحفل تھے۔مشاعرے کا آ غاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت حسیب اعجاز کے حصے میں آئی جب کے نعتِ رسول مقبول ۖ پیش کرنے کی سعادت نوجوان نعت گو شاعر شیخ طیب کا مقدر بنی۔ شیخ طیب نے علامہ اقبال کی نعت لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب بڑے دلنشیں انداز نیں پیش کر کے سامعین سے بے پناہ داد سمیٹی۔ اس کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا اور حا ضر ین نے تمام شعرا کو دل کھول کر داد دی اور ان کی شاعری کو بھر پوردادو تحسین سے نوازا۔مشاعرے میں جس خوبصورت انداز سے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا اور سامعین نے جس بھر پور انداز سے داد دی اس نے مشاعرے کو نیا رمگ عطا کر دیا۔بڑے اعلی معیار کی شاعری پیش کی گئی۔ ایک ایک شعر پر دادو تحسین کا زمزمہ بہہ رہا تھا کیو نکہ تمام سامعین کا تعلق بھی بنیادی طور پر شعرو ادب سے تھا۔ ایسی منفرد اور یاد گار محفلیں بڑی خال خال منعقد ہوتی ہیں جس میں حاضرین شعرو ادب کا اتنا گہرا ذوق رکھتے ہوںاور خوش قسمتی سے قلندرانِ اقبال کی یہ محفل اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں شریک حاضرین اقبال کی محبت میں بھی مستغرق تھے اور شعرو ادب سے خصوصی لگائو بھی رکھتے تھے۔ اس مشاعرے کی نظامت کے فرائض طارق حسین بٹ نے ادا کئے جو سارے مشاعرے کے دوران اقبال کے اشعار سے مشاعرے کو مزین کرتے رہے۔ ان کے اس منفرد اور نئے انداز کی بدولت سامعین کو علامہ اقبال کے ایسے بہت سے اشعار سننے کو ملے جو شائد ان کی نظروں سے پہلے نہیں گزرے تھے۔ طارق بٹ نے اپنے دو اشعار علامہ اقبال کی نذر کر کے مشاعرے کا آغا ز کیا ۔ یہ جو پاک وطن ہے میرا تعبیر ہے اس کے خوابوں کی۔۔اس کی مٹی میں ہے خوشبو سر خ رنگ گلابوں کیاس میں میرے جانبازوں کی تکبیریں اور اذانیں ہیں۔ سا یہ فگن ہے چاندنی اس پر روشن روشن مہتابوں کی۔۔۔ قلندرانِ اقبال کی محفلِ شعرو سخن کے شعرا کرام۔۔۔ پروفیسر مشکور حسین یاد۔ سعو د عثمانی ۔ سعید آسی ۔ع س مسلم۔ ظہو ر الا سلام جاوید۔ یعقوب تصور۔ ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی۔ تسنیم عابدی۔ ڈاکٹر ثروت زہرہ۔ سحتر تاب رومانی۔ سعید پسروری ۔محمد یعقوب عنقا۔ آصف رشید اسجد۔ طیب رضا۔طارق حسین بٹ۔فقیر سائیں۔ راجہ محمد احمد۔عبد السلام عاصم۔ارسلان طارق بٹ۔ عتیق احمد۔شیخ واحد حسن۔مشاعرے کا دوسرا حصہ علامہ اقبال کے تصورِ خودی پر خطبے کی صورت میں تھا جواس ادبی شام میں قلندرانِ اقبال کے سر پرستِ اعلی پرو فیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے دیا۔ یہ خطبہ اپنی علمی سطح اور جاذبیت کے لحاظ سے بہت بلند پایہ تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ اقبال کا تصورِ خودی انسان کا خود کو پہچاننے کا نام ہے۔ انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی کتاب اسرارِ خودی ١٩١٥ میں شائع ہوئی لیکن عجیب اتفاق ہے کے کوئی اس کو چھاپنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ علامہ اقبال اس کتاب کی اشاعت کے لئے فیروز اینڈ سنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ علامہ صاحب اس کتاب میں بالکل خسارہ ہی خسارہ ہے۔ یہ کتاب فارسی میں ہے اور فارسی کون پڑھے گا۔ علامہ اقبال نے کتاب کی اشاعتی لاگت کا آدھا حصہ اس وقت ادا کیا اور کہا کہ جب یہ کتاب چھپ جائے گی تو اس کے نقصان کے باقی ماندہ حصے پر اس وقت بات کریں گئے۔کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آئی تو اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کے نسخے نایاب ہو گئے۔ فارسی کے استاد پروفیسر نکلسن نے اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں کر کے اس کتاب کی افادیت اور شہرت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ پروفیسر نکلسن کہا کرتا تھا کہ ایک بہت بڑا شاعر ظہور پذیر ہو چکا ہے حالانکہ یہ علامہ اقبال کی فارسی کی پہلی کتاب تھی جب کہ اس کے بعد ان کا بہت سا فارسی کلام منظرِ عام پر آیا جس میں ان کی شعرہ آفاق کتاب جاوید نامہ بھی شامل ہے۔ فیروز اینڈ سنز والے شیخ صاحب جس کتاب کو خسارے کا سودا سمجھ کر قبول کرنے سے معذرت کر رہے تھے اسی کتاب نے انھیں مال و زر وجواہر میں نہلا دیا۔۔ ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ جاوید نامہ ہر دور کی کتاب ہے۔ جاوید نامہ ہر اس بڑی کتاب کی مانند ہے جو انسانی فکر، ندرت ،لطافت اور حسِ جمالیات کو ہر دور میں سیراب کرتی رہتی ہے۔اقبال جاوید نامہ میں تصورِ خودی کو بڑے بلیغ اور واضح انداز میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔۔اس حوالے سے اگر بغور دیکھیں تو جاوید نامہ بنی نوعِ انساں کے ماضی حال اور مستقبل کے مقدر کی نشاندی کرتا ہے۔ جاوید نامہ صرف علامہ اقبال اور زبانِ فارسی کا ہی عظیم فن پارہ نہیں بلکہ فکرو خیال فلسفہ اور اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بھی ایک منفرد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا تخلیقی کار نامہ ہے۔جاوید نامہ کے پیش کردہ تصور سے انسان کا جو ہیولی ابھرتا ہے وہ اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔علامہ اقبال کی شاعری میں انسان کاجو عمومی تصور جا بجا بکھرا ملتا ہے وہ جاوید نامے میں اپنی انتہائوں کو چھو لیتا ہے۔ علامہ اقبال کو یقینِ کامل تھا کہ اس کرہِ ارض کا انسان اگر فلسفہ خودی پر عمل کر لے تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہائوں کو چھو سکتا ہے اور لامکاں تک اسکی رسائی کو روکنا کسی فرد کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔ تو اے اسیرِ مکاں لا مکاں سے دور نہیں۔وہ جلوہ گاہ تیرے خاکدان سے دور نہیںمنزل ہے تیری مہ و پروین سے ذرا آگے۔، قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہاکہ پروفیسر نکلسن نے اسرارِ خودی کی اشاعت کے بعد اپنے دوست گو رنر پنجاب جنرل ڈائر کو لکھا کہ کہ اے میرے دوست ایک بہت بڑے شاعر کا ظہور ہو چکا ہے لیکن افسوس کہ وہ میری قوم کا فردنہیں ہے لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہ جس زبان میں شاعری کرتا ہے وہ اس کی اپنی قوم کی بھی زبان نہیں ہے۔پروفیسر نکلسن برِ ِ صغیر تشریف لاتے ہیں اور اپنے دوست جنرل ڈائر کو اقبال سے ملاقات کے انتظامات کیلئے کہتے ہیں۔برِ صغیر میں آنے کے بعد پروفیسر نکلسن جب بار بار جنرل ڈائر سے اقبال کا ذکر کرتے ہیں تو جنرل دائر پریشان ہو جا تا ہے کہ یہ پروفیسر تو زندگی میں اپنے سوا کسی کی تعریف نہیں کرتا لیکن یہ کون سی ایسی شخصیت ہے جس کا ذکر اس کے ہونٹو ں کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔ جنرل ڈائر گورنر ہائوس میں اقبال سے ملاقات کی خواہش کرتا ہے تو پروفیسر نکلسن اسے کہتا ہے کہ وہ یہاں نہیں آئے گا بلکہ میں اس سے ملاقات کرنے خود ا س کے پاس جائوں گا۔جنرل ڈائر کہتا ہے تو پھر میں بھی تمھارے ساتھ چلوں گا ۔ یہ بات اس زمانے کی ہے جب علامہ اقبال انار کلی کے دو کمروں کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہا کرتے تھے۔ اسی گھر میں جنرل ڈائر اور پرو فیسر نکلسن علامہ صاحب سے ملاقات کیلئے ان کے گھر تشریف لے جاتے ہیں ۔ دورنِ گفتگو جنرل ڈائر علامہ اقبال سے کہتا ہے مجھے چھہ افراد کو خطاب دینے کا اختیار حاصل ہے اور میری خواہش ہے کہ میں سر کے خطاب کیلئے آپ کے نام کا اعلان کر دوں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جب تک میرے استاد مو لوی میر حسن کو شمس العلما کا خطاب نہیں دیا جاتا میں سر کا خطاب قبول نہیں کر سکتا ۔ جنرل ڈائر مولوی میر حسن کیلئے خطاب کا وعدہ کر کے رخصت ہوتے ہیں اور مولوی میر حسن کے با رے میں ساری تحقیق کرنے کے بعد علامہ اقبال کو کہتے ہیں کہ آپ کی علمی وجاہت سے تو انکار ممکن نہیں لیکن آپ جس شخص کی بات کر رہے ہیں وہ توایک چھوٹے سے سکول کا استاد ہے اورا سکی کوئی ایسی تصنیف بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر مو لوی میر حسن کو شمس العلما کا خطاب دیا جائے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اسے کسی تصنیف کی کوئی ضر ورت نہیں ہے کیونکہ میں اس کی سب سے بڑی تصنیف ہوں۔میں آج جو کچھ بھی ہوں اسی مو لوی میر حسن کی وجہ سے ہوں لہذا مجھے خطاب دینے سے پہلے میرے استادِ محترم کو شمس العلما کا خطاب دیا جانا ضروری ہے ۔ اور ہاں ایک بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ میرے استادِ محترم بہت ضعیف ہو چکے ہیں اور وہ لاہور تک سفر کرنے کے بھی قابل نہیں لہذا یہ اعزاز انھیں ان کے اپنے شہر میں دیا جائے۔عزیزانِ من بالکل ایسے ہی ہوتا ہے مو لوی میر حسن کو شمس العلما کا خطاب انکے اپنے شہر سیالکوٹ میں دیا جاتا ہے اورا س کے بعد مو لوی میر حسن کا ہونہار شاگرد سر کا خطاب قبول کرتا ہے۔ یہی ہے وہ خودی جس کا اظہار علامہ اقبال کی شاعری میں جا بجا موتیوں کی طرح بکھرا ہوا ملتا ہے۔ یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے۔خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہےخودی کیا ہے رازِ درونِ حیات۔۔خودی کیا ہے بیدار یِ کائناتخودی جلوہ بد مست و خلوت پسند۔سمندر ہو اک بوند پانی میں بند پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ اقبال کا فلسفہ در حقیقت فلسفہ خودی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی انفرادیت، شخصیت یا انا کی کوئی مستقل حیثیت ہے یا یہ محض فریبِ تخیل ہے ۔ دنیا کے سارے حکما نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ افلا طون اور اس کے اتباع میں حکمائے ایران اور ہند اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کائنات میںصرف حقیقتِ کلی کا وجود ہے اس لئے انسانی ذات محض فر یبِ نظر ہے۔ انسانی زندگی کا مقصود حیاتِ کلی کے بحر میں خود کو فنا کر دینا ہے اور اسی فنائے ذات کا نام انسانی نجات ہے۔یہی وہ فلسفہِ حیات تھا جو ہمار ے ہاں نظریہِ واحد ت الوجود کے نام سے رائج ہے اور جس نے مسلمانوں جیسی ہمہ تن عمل قوم کو خاک کی آغوش میں سلا دیا تھا۔ علامہ اقبال نے اسی فلسفہ حیات کے خلاف مسلسل احتجاج کیا اور اس کے بر عکس اپنا فلسفہ خودی پیش کیا۔اس نظریہ کا ملخص یہ ہے کہ حیات عالمگیر یا کلی نہیں ہے بلکہ انفرادی ہے ۔ اس انفرادی زندگی کی اعلی ترین صورت کا نام خودی ہے۔جس سے انسان کی شخصیت یا انفرادیت متشکل ہو تی ہے لہذا انسانی زندگی کا مقصود فنائے ذات نہیں بلکہ اثباتِ خودی اور بقائے ذات ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک جوں جوں انسان اپنے خلق اور انائے مطلق کی مانند ہو تا جا تا ہے وہ خود بھی منفرد اور نادرہو تا جا تا ہے اسی کا نام استحکامِ خودی ہے۔ خدا کی مانند ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اندر صفاتِ خداوندی کو جذب اور منعکس کرتا چلا جائے۔خودی کے ضعف اور استحکام کو پرکھنے کا معیار صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنی راہ میں آنے والے موانعات پر کس حد تک غا لب آتا ہے۔ہر وہ عمل جس سے خودی میں استحکام پیدا ہو خیر ہے اور ہر وہ کام جس سے خودی کمزور ہو جائے شر ہے۔ جب انسانی خودی موانعات پر غلبہ حاصل کر کے پختہ تر ہو جاتی ہے تو پھر موت کا جھٹکا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتااور اس طرح انسانی زندگی دوام سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی۔مشرق میں ابھی تک وہی کاسہ ہے وہی آشحلاج کی لیکن یہ روائت ہے کہ آخر۔۔۔۔اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا اقبال کے نزدیک ارتقائے خودی کا پہلا مرحلہ تولیدِ آرزو ہے۔ آرزو عینِ حیات ہے اور اصلِ قوت ہے کیونکہ یہی عمل کی محرک ہو تی ہے۔تخلیقِ مقاصد کے بعد دوسرا مرحلہ حصولِ مقاصد کیلئے جہدِ مسلسل ہے ۔ جس کا حصول عشق کی تپش و خلش کے بغیر ناممکن ہے۔ اپنی اس جدو جہد میں کامیابی کے لئے تین شرائط ہیں۔ اطاعت۔۔ضبطِ نفس۔۔نیابتِ خداوندی۔۔اقبال کے نزدیک نیابتِ خداوندی سے مراد وہ قوت ِ مجریہ ہے جو دنیا میں قوانینِ خداوندی کی تنفیذ و ترویج کا موجب بنتی ہے۔ یہ مقامِ مومن ہے اور یہی مقام اقبال کے نزدیک استحکامِ خودی کا آخری نقطہ ہے ۔ اس مقام پر پہنچ کر آدمی ساری دنیا پر غالب آجاتا ہے ۔ دنیا اس پر غالب نہیں ہو تی ۔اس کیفیت کا نام اقبال کی اصطلاح میں فقر، درویشی اور قلندری ہے۔ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی۔ خودی کی خلوتوں میں کبریائیزمین و آسمان و کرسی و عرش۔خودی کی زد میں ہے ساری خدائی