نواجوان سنگر علی ظفر کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فلم “میرے برادر کی دلہن” ان کی بھارت میں بننے والی دوسری فلم ہے ۔ بنیادی طور پر فلم میں ہلکی پھلکی کامیڈی کی آمیزیش موجود ہے۔ فلم بینوں کی طرف سے اکثر ایسی فلموں کی اچھا رسپانس ملتا ہے۔فلم کی کہانی کش اگنی ہوتری عمران خان ، لواگنی ہوتری علی ظفر اور ڈمپل ڈکشت کترینہ کیف کے گرد گھومتی ہے جس میں کش اپنے بڑے بھائی لو کے لئے شادی کی غرض سے لڑکی ڈھنڈنے نکلتا ہے ۔اسی دوران اس کی ملاقات ڈمپل سے ہوتی ہے ۔ اسے لگتا ہے کہ ڈمپل ہی وہ لڑکی ہے جو اس کی بھابی بننے لائق ہے۔ مگر ڈمپل شادی سے پہلے موج مستی میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتی ہے ۔ڈمپل کش کے ساتھ گھومتی ہے ۔ اسی دوران لندن سے لو آجاتا ہے ۔ لو کے ساتھ گھومتے ہوئے ڈمپل کو محسو س ہوتا ہے کہ وہ کش کو چاہنے لگی ہے ۔ کش کو بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔ کش اور ڈمپل کس طرح گھروالوں کو اپنی شادی پر آمادہ کرتے ہیں یہی اس کہانی کا اصل تھیم ہے۔علی عباس ظفر کی یہ پہلی ڈائرکشن ہے لیکن جس خوبی کے ساتھ انہوں نے فلم پیش کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ انٹرول تک فلم کی رفتار بہت تیز ہے لیکن انٹرول کے بعد کچھ مناظر فلم کی رفتار پر بریک لگادیتے ہیں جس سے بوریت کا احساس ہوتاہے لیکن فلم جیسے ہی دوبارہ رفتار پکڑتی ہے دیکھنے والوں کی دلچسپی لوٹ آتی ہے۔دراصل علی عباس ظفر پرانی فلموں کے دلدادہ ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کرا نہوں نے “میرے برادر کی دلہن” کا اسکرین پلے لکھا ہے۔ کئی جگہ انہوں نے پرانے گانوں کو استعمال بھی کیا ہے اور کئی پرانی فلموں کے منظربھی دہرائے ہیں۔کترینہ اداکاری میں بازی لے گئی ہیں انہوں نے اپنے کیریئر کا بہترین کردار نبھایا ہے۔ پوری فلم ان کے اردگرد گھومتی ہے۔ ان کی اداکاری لاجواب ہے۔ عمران اس طرح کی اداکاری پہلے بھی کرچکے ہیں اس لئے وہ معمول کے مطابق ہی نظر آئے ہیں لیکن علی ظفر کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے کردار کو اسٹائلش لک دیا ہے ۔اگر کہیں کچھ کمی نظر آتی ہے تو وہ ہے فلم کی موسیقی۔ یش راج کیمپ کی ہر فلم کی موسیقی عام لوگوں کے ہونٹوں پر بار بار گنگنائی جاتی ہے لیکن اس بار شاید ایسا نہ ہو۔ فلم کے نمایاں فنکاروں میں عمران خان، کترینہ کیف، علی ظفر، تارا ڈی سوزا، کنول جیت سنگھ اورپریکشت سا ہنی شامل ہیں جبکہ فلمساز ادتیہ چوپڑا، رائٹر ڈائریکٹر : علی عباس ظفر ہیں ۔ سروں کو سجایا ہے سہیل سین نے۔ فلم مجموعی طور پر دیکھنے والوں کو تفریخ فراہم کرتی ہے۔