پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہراتے ہوئے مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
چودہ اگست کو لاہور سے چلنے والے آزادی مارچ کے اختتام پر سنیچر کی صبح اسلام آباد میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سنیچر کی شام تین بجے سے دھرنے پر بیٹھیں گے۔
انھوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’نواز شریف اب فیصلہ کر لو۔ آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔ مستعفی ہو کر نئے الیکشن کروا دیں۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو ری الیکشن سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بقول ان کے ان کی جماعت نے تو ایک کروڑ ووٹ لیے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ان سے خیبر پختونخوا میں ری الیکشن کروانے کو کہا جائے تو وہ پہلے سے زیادہ نشستیں جیتیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ان پر جمہوریت ڈی ریل کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن ’پاکستان میں جمہوریت ہے ہی نہیں تو ڈی ریل کیا ہوگی۔‘
انھوں نے کہا وہ نواز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے کیونکہ وہ انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں اس عہدے پر پہنچے ہیں۔
آزادی مارچ سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی آزادی کی جنگ ہے اور وہ خوف کے بت کو توڑنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ملک کو حقیقی آزادی نہیں دلوا دیتے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے چار حلقوں کا مطالبہ کیا تھا جس کے لیے قانون سمیت ہر جگہ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہمیں انصاف نہیں ملا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا اب سڑکوں پر نکلیں گے۔‘
عمران خان نے کہا کہ اگر قوم نے ایسے انتخابات کو چیلنج نہیں کیا تو اس ملک میں کوئی ایمانداراور پڑھا لکھا انسان انتخابات نہیں لڑ سکتا کیونکہ جب دھاندلی میں مقابلہ ہوتا ہے تو صرف وہی جیتتا ہے جسے دھاندلی کرنا آتی ہے۔
’ہم کسی صورت اس الیکشن کو قبول نہیں کریں گے اگر ہم نے اسے قبول کیا تو پاکستان کی جمہوریت کی تباہی میں ہم برابر کے حصے دار ہوں گے۔‘
عمران خان نے کارکنوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’تین بجے یہاں آؤں گا اور تب تک یہاں رہوں گا جب تک نواز شریف مستعفی نہیں ہو جاتے۔ رات بھی یہاں کنٹینر پر گزاروں گا۔‘
تقریر کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ نئے الیکشن کے نتیجے میں نیا پاکستان بنے گا جسے بننے سے اب کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
اس سے قبل جلسے سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا جن میں جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک بھی شامل تھے۔
پرویز خٹک نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں جمہوریت کو دھاندلی کرنے والوں نے ڈی ریل کیا ہے اور اب انھیں جانا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک وزیراعظم نواز شریف کی جاگیر نہیں ہے اور وہ اسلام آباد واپس خالی ہاتھ جانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا ’آزادی مارچ‘ جمعرات کی دوپہر لاہور سے شروع ہوا تھا اور یہ 34 گھنٹے میں جمعے کی شب اسلام آباد پہنچا۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے اس مارچ کے شرکا کو کشمیر ہائی وے پر جلسہ کرنے کی اجازت دی ہے اور وزیرِ داخلہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ان افراد نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
پاکستان تحریکِ انصاف 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتی رہی ہے اور اس کا موقف ہے کہ اسے الیکشن ٹرائبیونلز میں بھی انصاف نہیں ملا۔
آزادی مارچ کے آغاز سے قبل پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم عمران خان نے ان کی اس پیشکش کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک نواز شریف وزارتِ عظمیٰ پر موجود ہیں انھیں انصاف کی توقع نہیں اور عدالتی کمیشن تبھی غیرجانبدار ہوگا جب وہ مستعفی ہوں گے۔