عمران خان کے کریڈٹ پر 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فتح،کینسر ہسپتال اور میانوالی میں ایک یونیورسٹی کا قیام ہے۔سوال بہت سادہ ہے کہ کراچی کے جلسے میں ان تین کارناموں کو گنوا کر 18 کروڑ عوام کی امنگوں اور امیدوں کو پورا کیا جا سکتا ہے؟اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو پاکستان میں بیسیوں ایسے افراد موجود ہیں جن کے کیریئر کی کتاب اس سے زیادہ کارہائے نمایاں سے مزین ہے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ1995ء میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے عمران خان نے اپنے پندرہ سالہ سیاسی دور میں صرف ایک نشست جیتی اور چند سو لوگ ان کی کشتی میں سوار ہوئے لیکن یکایک کایا ایسی پلٹی کہ ان کی ٹیم کے کوچ نے آئی پی ایل کی طرح خفیہ بولی لگا کر حریف جماعتوں کے منجھے ہوئے کھلاڑی ایک ایک کر کے خرید لئے،اب اس امر کو فرنچائز بولی کا نام دیں یا خاکی لباس میں ملبوس افراد کی خفیہ بولی؟اگرحقیقت پسندانہ زاویہِ نگاہ سے دیکھا جائے تو ارضِ وطن پاکستان میں گزشتہ ساٹھ برس سے قانون کی حکمرانی تو رہی ہی نہیں بلکہ طالع آزمائوں ،بادشاہوں،موروثی سیاستدانوں،عیاشوں،وڈیروں،نوڈیروں،لٹیروں اور خفیہ ہاتھوں کے ہاتھوں میں زمام اقتدار رہی جس وہ جب چاہے جس کو چاہے اپنی مرضی سے ہانکتے چلے گئے،یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ سیاستدان ہمیشہ خفیہ ہاتھوں میں کھیلتے رہے،سکندر مرزا کی جھولی ہو یا ایوب خان کا دامن،جنرل جیلانی کی آغوش ہو یا جنرل ضیاء الحق کا در،یہ ہر دور میں نام نہاد سیاستدانوں کی تربیت کی نرسریاں رہی ہیں جہاں یہ آمریت کے سائبان تلے پلتے رہے اور جب سیاسی بلوغت کو آن پہنچے تو انہیں عوام پر مسلط کر دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ ان خاکی لباس والوں کے سیاست میں ملوث ہونے،قانون کو اپنی زر خرید لونڈی سمجھ کر کاغذ کے ٹکڑے کی طرخ پھاڑنے اور ملکی داخلی و خارجی امور میں ملوث ہونے کی وجہ سے سانحہِ مشرقی پاکستان رونما ہوا،1984ء میں سیاچن ہم سے چھن گیا،کارگل جنگ ہم ہار گئے،ایبٹ آباد میں ہماری سالمیت اور خود مختاری کو سر عام روند دیا گیا،مہران بیس پر حملہ ہوا،سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے ہمارے جوانوں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر شہید کر دیا گیا لیکن ہماری خاک وردی والے خاک آلودہ نہ ہوئے آکر کیوں؟میری ناقص رائے میں اب خاکی لباس پھر متحرک ہو چکا ہے اور پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر بیچنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔میرے ایک شاعر دوست نے اس حوالے سے ایک خوبصورت مصرعہ کہا تھا کہ بدلتے رہتے ہیں چہرے یہاں نظام نہیں لیکن مجھے تو یہ لگتا ہے کہ نظام تو وہی کا وہی ہے جبکہ چہرے بھی وہی پرانے شناسا ہیں جنہوں نے اپنی شوگر ملوں کے ہوتے ہوئے بھی عوام کو منگی چینی فروخت کی،گندم کو اس عوام پر نہ صرف مکروہ چیز بنا دیا بلکہ قطاروں میں کھڑا کر کے دیہاڑی دار مزدور کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا۔کرپٹ ترین جہانگیر ترین کا اسم گرامی تو زبان زد عام ہے موصوف کی شوگر ملوں کے چرچے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔کل جنرل مشرف کی آغوش میں رہ کر آمریت کے لب و لہجے میں بات کرنے والے ترین صاحب آج عمران خان کی ٹیم کے جہانگیر ترین سے اہم ترین رکن بن گئے۔اسی طرح کی ایک طویل فہرست ہے ان کرپٹ اور وفاداریاں بدلنے والے سیاستدانوں کی جو چڑھتے سورج کے پجاری بن کر اپنی نئی سمت کو متعین کرنے انصاف کی دہلیز پر آن پہنچے ہیں۔جن کی وزارتوں کے دور میں عوام انصاف کو ترستی رہی آج پہلے وہ خود انصاف کا لبادہ اوڑھنے آئے ہیں تاکہ عوام یہ سمجھے کی اب ان کا لباس انصاف لباس ہے لیکن بے شعور عوام،بے بس اور لاچار عوام کو کیا خبر کہ بدقسمتی سے بیچاری عوام ظاہری نقش و نگار پر فریفتہ ہو کر پانچ سال تک غربت،بے روزگاری،مہنگائی اور لاقانونیت کے زہر کے گھونٹ پینے پر مجبور ہوتی ہے۔ایسے میں ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ جب تک نظام کی مکمل سرجری نہیں ہوجاتی اس وقت تک موجودہ نظام عوام کی حالت زار بدلنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ڈاکٹر طاہر القادری کے نزدیک پورا نظام کینسر زدہ ہے اب اس کی میجر سرجری کی ضرورت ہے جس کیلئے قومی حکومت کا فارمولا کارگر ہے جس کی رو سے کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے،اداروں کی تنظیم نو کر کے بدعنوانی ،اقربا پروری کا خاتمہ کر کے میرٹ کو بنیاد بنیایا جائے اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر شفاف جمہوری نظام قائم کیا جائے تب جا کر رفتہ رفتہ حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو تبدیلی تو درکنار عمران خان بھی اسی گلے سڑے نظام کے سونامی کی نذر ہو جائیں گے اور عوام یاس و قنوطیت اور مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔اب گیند عمران خان کے کورٹ میں کیانکہ ابر آلود موسم اور گیلی وکٹ پر ان کے تھکے ماندے بیٹسمینوں کو شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں،عمراں خان تو صرف دس اوور کروا سکتے ہیں باقی باولرز کو پہلے ہی بہت مار پڑ چکی ہے۔اس لئے پرانے کھلاڑیوں کی بجائے اگر ینگ ٹیلنٹ آزمایا جائے تو مستقبل میں عمران خان شاید سیاست اور عوامی خدمت کا کپ جیت سکیں اگر ایسا نہ کیا تو پرانے فیلڈرز کی ناقص فیلڈنگ کی وجہ زیادہ کیچز چھوٹنے کا خطرہ جس کا فائدہ عوام کو نہیں ہو گا۔بس اتنا ہی کہ سکتا ہوں کہ خان صاحب جس طرح آپ نے پلاننگ کی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ تحریر:۔ محمد عمر ریاض عباسی