اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لفظ سیاست کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ حالانکہ معنوی اعتبار سے سیاست معاشرے میں رہنے والے افراد اور انکے اندر باہمی روابط ، میل جول ، خوشی غمی اور معاشرے کے اندر رہنے والے افراد کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کے حل کیلئے اسی سوسائٹی کے فرد کو اجتماعی طور پر منتخب کیا جاتا ہے ۔ منتخب ہونے والا ایماندار ، پرخلوص ، ملنسار، قوم وملک کا درد رکھنے والا ہوتا ہے اور اس کے اندر اجتماعیت کا مثبت پہلو ہوتا ہے اور اس فرد کے اندر سیاست کرنے کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں ، آ ج پاکستان میں جمہوریت کے لفظ کو بہت استعمال کرتے ہیں اور جب الیکشن قریب ہوتے ہیں تو ہر جماعت ملک میں جمہوریت کا بول بالا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اقتدارمیں آنے کے بعد یہ تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اگر ان سے پوچھا جائے کہ بھائی یہ آپ کے دور حکومت میں بجلی بحران ، گیس بحران ، مہنگائی کا طوفان ، سابقہ ادوار سے زیادہ لوٹ مار کیوں ہے تو حکمران پارٹی کے حواری کہتے کہ اس میں ہماری پارٹی کا تو کوئی قصور نہیں ، یہ بحران توہمیں سابقہ حکومت سے ملے ہیں ، عمران بھائی نے کہا آپ بھی ایسا کریں گے۔
اس وقت پاکستان کے تمام ادارے تباہی کے آخری دہانے پر کھڑے ہیں ، کسی کو پتہ نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں ، اس میں میرا کتنا نقصان ہے ، میرے یہ چند رشوت کے ٹیکے لیکر ناجائز کام کرکے اپنا اور ملک و قوم کا کتنا نقصان کر رہا ہوں ، چپڑاسی سے لیکر اعلیٰ عہدوں تک تمام افراد دھڑلے سے رشوت لے رہے ہیں ، معاشرے میں شریف آدمی کا جینا مشکل ہو گیا ہے ۔ جائز کام کیلئے بھی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے ، امیر سے امیر تر ہونے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ عمران بھائی بھی اپنے جلسے جلوسوں میں اداروں میں تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ مگر ہم عمران خان صاحب کو مشورہ دیں گے کہ پاکستان کی سیاست کرکٹ کا میدان نہیں ، پاکستانی سیاست کی وکٹ اتنی سلو ہے کہ شاید آ پ کو ایک وکٹ بھی نہ ملے، یہاں کی سیاسی بچ اور وکٹیں حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنے ضمیر کو بیچنا پڑے گا، کیونکہ آ پ کے اردگرد منافقت کے دبز پردے لٹکے ہوئے ہیں ۔ یہاں کی سیاست میں ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے ۔ کے مصداق آپ کو باقاعدہ ضمیر فروشی کے علاوہ منافقت اور سب سے اچھے کا ڈپلومہ کرنا پڑے گا ۔ عمران بھائی یقینا ہم آ پ کے جذبات کا احترام کرتے ہیں ہم آ پ کی پارٹی کے مشور کے قائل بھی اور اس بات کی خوشی بھی ہے کہ آپ قوم کو ایک نیا آئیڈیا دے رہے ہیں ۔
اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ایک نئی انقلابی تبدیلی کا سلو گن دکھار ہے ہیں ، اور ہمیں آپ کے جلسوں میں نوجوان دکھائی دیتے ہیں ان کو دیکھ ہمیں بھی عمران خان کے سونامی میں تھوڑی سی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے ۔ مگر ہمیں ڈر سالگ رہا ہے ، کیونکہ پاکستان کی سیاست جس کا آپ نے انتخاب کیا ہے یہ دریا پر لکڑی کا پل ہے کہیں ٹوٹ نہ جائے ۔ یقینا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آ پ کے بائولنگ اٹیک میں جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی ساتھ ہیں ہم آپ کو داد دیتے ہیں کہ ماشاء اللہ، ہاشمی صاحب اور شاہ محمود صاحب آپ کے بائو لنگ اٹیک میں اچھا ساتھ دے رہے ہیں۔
کیونکہ جاوید ہاشمی نے نواز شریف کے خلاف میں باغی ہوں کا نعرہ بلند کرکے پارٹی سے علیحدگی اختیار کی اور شاہ محمود قریشی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے جھوٹے جیالے اور انکی پالیسیوں سے انحراف کر کے عمران خان کے ٹھاٹھیں مارتے سونامی کا حصہ بنے ہیں اب دیکھئے کہ اس لکڑی کے پل کو کون عبور کرتا ہے اور عمران بھائی کا سونامی طوفان موجودہ حکمران کو بہا کر لے جائے گا دیکھتے ہیں کہ عمران بھائی کتنے اچھے تیراک ہیں کنارہ ابھی دور ہے ۔ پلٹنا چھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ کے مصداق اللہ تبارک تعالیٰ عمران بھائی کو کامیابی عطا فرمائے آمین۔