باغی 1864ء میں الیگزنڈریاتک آ پہنچے ۔امریکی فوجیں فورٹ سٹیونز میں جمع ہو گئیں۔ابراہام لنکن قلعے کی چھت پر چڑھ کر کھڑا ہو گیا ۔جرنیلوں میں سے ایک نے قریب آ کر کہا”مسٹر صدر ! بہتر ہو گا کہ آپ نیچے اتر آئیں”۔لیکن لنکن نے کوئی توجہ نہ دی۔تھوڑی دیر بعد لنکن سے پانچ فُٹ دور ایک سپاہی دشمن کی گولی سے ڈھیر ہو گیا اور تین فُٹ دور دوسرا ۔اچانک ابراہام لنکن کو عقب سے گرجدارا واز سنائی دی”احمق ! نیچے اتر آؤ” ۔اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ایک کیپٹن کھڑا تھا۔”بہت خوب کیپٹن” کہہ کر ابراہام لنکن مسکراتا ہوا نیچے اتر گیا ۔یہ کیپٹن آلیور ونڈل ہومز تھا جو 1861 ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے اپنی لاء کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر خانہ جنگی میں حصّہ لینے کے لیے چل پڑا۔
اسی وینڈل ہومز کوبعد میں امریکی صدرروزویلٹ نے اِس اُمید پر سپریم کورٹ کا جج بنایا کہ وہ اُس کی مرضی کے مطابق عمل کرے گالیکن ہومز نے پہلے بڑے مقدمے میں ہی اُس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔روزویلٹ تو غصّے سے دیوانہ ہو گیا لیکن عوام بہت خوش تھے۔اُن کے خیال میں وہ ایک غیر جانبدار جج تھا۔آنے والے برسوں میں اُس کی ”اختلاف پسندی” امریکی سپریم کورٹ کی روایت بن گئی۔ایک دفعہ ایک اخباری رپورٹر نے ایک کاریگر سے پوچھا ”تمہارے نزدیک وینڈل ہومز کی کیا اہمیت ہے”؟۔ اُس نے جواب دیا ”وہ سپریم کورٹ کا سب سے جوان جج ہے جو بوڑھے ججوں سے ہمیشہ اختلاف کرتا ہے”اُس وقت ہومز ستاسی برس کا سینئر ترین جج تھا۔
آج کل سپریم کورٹ ، خصوصاََ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بلند آہنگ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انتہائی نا خوش حکمران اُنہیں نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔جب سے حکمرانوں نے طوہاََ وکرہاََ عدلیہ بحال کی ہے ، تب سے اب تک اُن کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں۔وکیلوں کو توڑنے کے لیے اُنہیں اربوں کے کیس دیئے گئے اور تیل کے ٹھیکے بھی ۔اینکرز کو خریدنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایاجا رہا اورکوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب الیکٹرانک میڈیا پر طوفان بدتمیزی بپا نہیں کیا جاتا۔چُن چُن کر ایسے میزبانوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن کے سینے بغض و عناد سے لبریز ہوں ۔ اعلیٰ عدلیہ سے خُدا واسطے کا بیر رکھنے والی ایک بزعمِ خویش دبنگ خاتون وکیل آجکل بہت متحرک ہیں۔وہ چونکہ خاتون ہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ خواتین تو ”طعنے مہنے” دینے میں یدِ طولیٰ رکھتی ہیں ۔محترمہ بھی آجکل اِس فن کا بے محابہ استعمال کر رہی ہیں۔ اپنے کام میں مگن عدلیہ کو دیکھ کر بے ساختہ محترمہ کی خدمت میں یہ عرض کرنے کوجی چاہتا ہے کہ نکالا چاہتا ہے کام تُو طعنوں سے کیا غالب تیرے بے مہر کہنے سے وہ تُجھ پہ مہرباں کیوں ہو محترمہ نے پچھلے دِنوں میموگیٹ نظرِ ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے ایک ”بنچ ”کے سامنے ایک ایسی بات کہی جو قانون کی کتابوں میں سنہری حروف سے لکھی جانی چاہیے تاکہ ہر مفرور اُس سے مستفید ہو سکے۔انسانی حقوق کی علمبردار نے حسین حقانی کی عدم پیشی کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا”میمو کمیشن نے حسین حقانی کو غدار قرار دیا ہے۔کیا وہ یہاں آ کر جان ہار دیں؟۔اگر قانون اسی کا نام ہے تو پھر جنگل کا قانون کسے کہتے ہیں؟۔کیا محترمہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اگر کسی مجرم کا جرم ثابت ہو جائے تو راہِ فرار اختیار کرنا اُس کا آئینی و قانونی حق ہے۔
محترمہ سے بصد عجز و نیاز یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا قانون کی حکمرانی اسی کا نام ہے؟۔اِن دنوں بھارتی صوبہ بہار کے وزیرِ اعلیٰ ستیش کمارپاکستان کے دورے پر ہیں ۔یہ وہ صوبہ ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تک کرپشن اور بد عنوانی کے لحاظ سے بھارت کابد ترین صوبہ قرار دیا جاتا تھا لیکن آجکل بہترین ۔ستیش کمار سے بار بار یہ پوچھا گیا کہ صوبہ بہار میں یہ انقلاب کیسے آیا ؟۔اُن کا ہر جگہ ایک ہی جواب تھا کہ ”رول آف لاء سے لیکن رول آف لاء کی جو تشریح محترمہ فرما تی رہتی ہیں اُس سے تو قومیں برباد ہوتی ہیں ، آباد نہیں۔ آجکل عدلیہ اور فوج کو باہم دست و گریباں کرنے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں۔محترم چیف آف آرمی سٹاف نے پچھلے دنوں آرمی آفیسرز سے چند باتیں کیں اور یہ محض اتفاق ہے کہ محترم چیف جسٹس ا فتخارچوہدری صاحب نے بھی اُسی دن 97 مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب فرمایا جس کے بعد لال بجھکڑوں نے طرح طرح کی تاویلات پیش کرنا شروع کر دیںجو آج تک جاری ہیں ۔ایک ایسے ہی لال بجھکڑ کی ”چڑیا ” تو دور کی کوڑی لائی ۔اُس چڑیا کو یہ الہام ہوا کہ ملک ریاض کے اچانک شعیب سڈل کمیشن کے سامنے پیش ہو جانے میں بھی فوج کا ہاتھ ہے اور فوج ملک ریاض کے ذریعے سے چیف جسٹس صاحب کو کونے میں لگانا چاہتی ہے ۔یہ تو محترم چیف آف آرمی سٹاف کی انتہائی دانشمندی ہے کہ انہوں نے ”جوابِ آں غزل” کے طور پر کچھ نہیں کہا وگرنہ ”بکاؤ مال” نے تو کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی ۔اگر یہ تصادم ہو جاتا تو پھر سوائے ا نّا للہ پڑھنے کے کیا باقی بچتا۔
Supreme Court
یوں تو ماشااللہ ہماری آئین ساز اسمبلی کا بھی یہ حال ہے کہ اگر ان آئین سازوں سے 73 ء کے آئین کی چھوٹی سی کتاب کا امتحان لیا جائے تو صورتِ حال ”خود بھی شرمار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر” والی ہی ہو گی لیکن لا ریب عوام تو کسی آئین کو نہیں جانتے۔ عوام کا آئین اور اُنکی معیشت پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پرہی ختم ہو جاتی ہے اور اُنہیں ایسی ہی عدلیہ درکار ہے جو اُنکی آتشِ شکم کا کوئی علاج کر سکے ۔اس لیے جب تک عوام ساتھ ہیں یہ عدلیہ حکومتی سازشوں یا وکلاء کی گروہ بندیوں سے نہیں جانے والی ۔یہ بجا کہ سیاسی اور اقتصادی فیصلے سیاسیات اور اقتصادیات کے ماہرین کو ہی کرنے چاہییں لیکن اگر وہاں چور ڈاکو اور لُٹیرے براجمان ہوں تو پھر؟ ۔۔۔ پھر کیا قوم اسی کو مقدر سمجھ کر صبر کر لے؟ ۔نہیں ، ایسا نہیں ہوتا اور نہ کبھی ہوا ہے۔تاریخ کا سبق تو یہ ہے کہ ایسی حالتوں میں انقلاب آیا کرتے ہیں خونی انقلاب۔ اِن حکمرانوں ، وڈیروں ،نوابوں ، جاگیرداروں ، رسہ گیروں ، بیوروکریٹوں ، خائنوں اور بد دیانتوں کو تو اعلیٰ عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں کی شبنمی ٹھنڈک سے عوامی نفرتوں کے دہکتے الاؤ کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور سعی کر رہی ہے۔یاد رکھیے کہ عدلیہ ہی عوام کی آخری اُمید ہے۔اگر یہ اُمید بھی دم توڑ گئی تو پھر فرانس کی گلیاں ہونگی اور شاہ لوئی اور اُس کے حواریوں کے سر۔ ۔۔۔