عورت پاؤں کی جوتی نہیں

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

ہر باشعور انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی نہیں بلکہ بڑی قابل عزت ہستی ہے۔اسلام نے عورت کو کس قدر عزت دی ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت عورت (ماں)کے قدموں کے نیچے رکھی ہے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اسلام کلی مساوات اور عدل وانصاف کی دعوت دیتا ہے اور بچوں پر رحم وشفقت کے سلسلہ میں اسلام نے مردوعورت ‘مذکر،مونث اور نرومادہ میں تفریق نہیں کی تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک پر عمل ہوسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورة المائدہ میں ارشاد فرمایا کہ عدل کرو یہی بات تقویٰ سے نزدیک ہے”لڑکی کولڑکے سے کمتر سمجھنے کی غلط ذہنیت کوختم کرنے کے لیے اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر بہت زور دیا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بیٹی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ”جس آدمی کے گھر دو لڑکیاں پیداہوں اوروہ ان کی پرورش کرے حتٰی کہ وہ جوان ہوجائیں توایسا آدمی بالکل اسی طرح میرے ہمراہ جنت میں داخل ہوگا جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہیں(ترندی) راقم جیسے گناہ گار شخص کو جنت کی تو خاص طلب نہیں لیکن اگر سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ساتھ ملے اور وہ بھی اس قدر سستے داموں تو کون کم بخت ہے جو ایسی جنت نہ خریدے اسلام سے پہلے اہل عرب بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔

اول توبیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا کرتے یا پھر جب بیٹیاں چلنے پھرنے کے قابل ہوتیں تو باپ انھیں کسی بہانے سے جنگل میں لے جاتے اور کسی گڑھے میں پھینک کرمٹی میں دفن کردیتے ۔اہل عرب کا یہ ظالمانہ عمل اللہ تعالیٰ کو اتناناگوار گزراکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سخت مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ”اور جب اس لڑکی جوزندہ دفن کردی گئی ہوپوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ٨۔٩”یہاںپوچھنے کا مقصد اس بچی کی گواہی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ سب دیکھتا سنتا ہے ۔یقینا بچی گواہی دے کہ وہ تو معصوم تھی اسے تو معلوم ہی نہ تھا کہ جرم کیا ہے۔ اہل یونان کی طرح اہل عرب معاشرہ میں بھی غلامی کا رواج عام تھا۔لونڈیاں اورغلام بازار میں عام جانوروں کی طرح بیچے جاتے تھے ۔غلام کی قیمت ادا کرنے والے آقا اپنے غلاموں سے طرح طرح کے کام لیتے اور ان پرہرطرح کے ظلم و ستم ڈھاتے تھے ۔ایسے جاہل معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہوسکتا تھا۔ اہل شعور یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔

میں اس دور میں موجود نہ تھا اس لیے اندازہ ہی لگا سکتا ہوں ۔میرے خیال کے مطابق دور جہالت میں عورت صرف ایک جسم تھی جس کی کوئی قیمت بھی نہ تھی اور اسے اپنی ہی زندگی پر کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا ۔جیسے کوئی بھیڑیا بکری پالنے والا جب چاہے جہاں چاہے باندھ دے،جب چاہے جسے چاہے بیچ دے اور جب چاہے ذبح کردے۔عورت دورجہالت میں عرب اور یونانی معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ تھی۔جاہل لوگ بیٹیوں کو عار سمجھ کر پیدا ہوتے ہی قتل کردیتے ۔ایک مرد جتنی عورتوں سے چاہے شادی کرلیتا۔باپ کی بیوہ ورثے میں بڑے بیٹے کی داشتہ بن جاتی،عورت کے لیے اس معاشرے میں کوئی عز ت واحترام نہ تھا۔عورت کا مقام پالتوں جانور سے بھی کم تھا۔جائیداد میں عورت کا کوئی حصہ نہیں تھا۔شعر وشاعری میںمحبوبہ کانام ننگے الفاظ میںلیا جاتا اور اس گندی حرکت پرفخر کیاجاتا۔بے حیائی اورفسق وفجورکابازار گرم تھا ۔پھر جب اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب نبی حضرت محمدۖ نے اہل عرب کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا اور بتایا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔

Women

Women

اس وقت اہل عرب جوجانوروں کی سی زندگی بسر کیا کرتے تھے اللہ کے نبیۖنے انھیں اسلام کی دعوت دی اور انسانیت کے تقاضے بتائے جس میں عورت کی عزت واحترام لازم کرکے عورت کو ماں، بیٹی،بہن اور بیوی کی حیثیت میں ایسا مقام عطا فرمایا جسے قائم رکھنے اور دشمنوں سے بچاتے ہوئے باپ،بھائی اور خاوند اپنی جان تک قربان کرنے لگے ۔اسلام نے وراثت میں عورت کو حصہ دے کر اسے دنیا میںجینے کا حق دے دیا۔وراثت میں حصہ دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عورت کو معاشرتی برائی بننے سے روکا جاسکے ،تاکہ عورت بے حیائی ،فحاشی ، بدکاری اور جسم فروشی کو اپنا ذریعہ معاش نہ بنائے ۔آج دور جدید میں صرف عورت ہی نہیں پوری انسانیت مشکل میں ہے لیکن میرا آج کا موضوع عورت ہے ۔بے شک عورت اس کائنات کا حسن ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا عورت پر ظلم صرف مرد کرتا ؟ میرا جواب ہے نہیں عورت پر ظلم عورت ہی کرتی ہے ۔آج بھی کئی مسلمان خاندانوں میں دور جہالت کی یہ روایت قائم ہے کہ بچی کی پیدائش پر باپ 40دن تک سوگ میں رہتا ہے، اور باپ کی والدہ اوربہن یعنی پیدا ہونے والی بچی کی دادی اور پھوپھی بچی کی ماں کوسالہا سال بلکہ ساری زندگی دل کوچیر دینے والے طعنے دے کر سوگ مناتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کو تیسری عورت کی پیدائش پرطعنے کیوں دیتی ہے؟میرا خیال ہے کہ مال و دولت کی محبت اور خصوصا دوسروں کے مال پرہاتھ صاف کرنے کی فکر دادی اورپھوپھی کوعورت ہوتے ہوئے بھی اپنی پوتی اور بھتیجی کادشمن بنا دیتی ہے ۔بچی کے پیدا ہوتے ہی والدین کو یہ فکرلاحق ہوجاتی ہے کہ اب بیٹی کی شادی پر اسے ڈھیرساراجہیز دینا پڑے گااور اس کی ساس اور نند کے نخرے وناز برداشت کرناپڑیں گے۔پہلی بات یہ کہ جہیز کو اسلام میں لعنت کہا گیا ہے ۔دوسری بات یہ کہ ساس اور نند بھی مرد نہیں بلکہ عورتیں ہیں۔قارائین محترم دور جہالت کی بات تو ہم سب ہی کرتے ہیں کہ دورجہالت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا ۔میں آج اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ آج دورجدید میں ہم دور جہالت سے بھی زیادہ ظلم کررہے ہیں ۔جی ہاں دور جہالت میں لوگ بچی کو پیدا ہونے پر زندہ دفن کردیا کرتے تھے لیکن آج ہم بچی کوپیدا ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔

آج ڈاکٹر بذریعہ ultrasoundدوران حمل ہی بتا دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں بچی ہے یا بچہ ۔اس طرح جب گھر والوں یعنی دادی اور پھوپھی کو اس بات کا پتا چلتا ہے تودورجدید کے جاہل لوگ ڈاکٹر کو اس ماں کا حمل ضائع کرنے کا کہتے ہیں جس کے پیٹ میں بیٹی پل رہی ہوتی ہے اور ڈاکٹر بھی چند روپوں کی خاطر اتنا بڑا گناہ کرتے وقت ذرا نہیں گھبراتے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔ جس معاشرے میں عورت کا مقام صرف ایک جسم ہوگا وہاں عورت ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کا مقام کس طرح حاصل کرسکتی ہے ۔آج سینکڑوں تنظیمیں خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔عورت کو بااختیار بنانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔خواتین کے حق میںبہت سارے قوانین پاس ہوچکے ہیں۔

لیکن سب بے کار عورت آج بھی دور جہالت کی طرح ایک کھلونا بن کے رہ گئی ہے اور جب تک عورت اپنے مقام کو نہیں سمجھے گی تب تک دنیا کی کوئی طاقت اسے اس کا کھویا مقام واپس نہیں دلا سکتی ۔عورت کا عزت واحترام والامقام ایک ماں کی حیثیت میں ہے ایک بہن کی حیثیت میں ایک بیٹی کی حیثیت اور ایک نیک سیرت بیوی کی حیثیت میں ہے۔جب جب عورت ان رشتوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گی تب تب ذلیل و رسوا رہے گی۔آج ہی میں فیس بک پر ایک پیغام پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھاکہ بیوقوف عورت اپنے شوہر کو غلام بناتی ہے اورخود غلام کی بیوی بنتی ہے ۔جب کہ عقلمند عورت اپنے شوہر کو بادشاہ بناتی ہے اس طرح وہ خود ملکہ بنتی ہے۔ایک اور کہاوت عام ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی نہ کسی کامیاب عورت کاہاتھ ہوتا ہے ۔

گویا مرد کی کامیابی ہی عورت کی کامیابی ہے ۔ایک ماں ایک معاشرے کو جنم دیتی ہے مانا کہ مرد بھی عورت پر ظلم کرتا ہے پر غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اس مرد کی ماں جوخود بھی ایک عورت ہے نے پرورش ہی ایسی کی ہے کہ وہ مرد عورت خاص طور پر بیوی کو پائوں کی جوتی سمجھتا ہے ۔اگر مائیں اپنے بیٹوں کو بتائیں کے عورت پائوں کی جوتی نہیں بلکہ عزت واحترام کے قابل ہے ۔اور مرد بھی اس بات کو سمجھے کہ اسے دنیا میں آنے کے لیے ایک عورت کی ضرورت پڑھی تھی اور اسے اپنے خاندان کو آگے چلانے کے لیے بھی ایک یا ایک سے بھی زیادہ عورتوں کی ضرورت ہے ۔تو پھر یقینا مرد کبھی بھی عورت پر ظلم نہ کرے ۔میرے خیال میں عورتوں کے لیے علیحدہ قوانین بنانے کی بجائے عورت کو بھی مرد کی طرح بلا امتیاز انسان تصور کیا جائے تاکہ عورت کو حقیر سمجھنے کی روایت ختم ہو اور عورت کو مرد کے برابر حقوق ملیں ۔

womans

womans

قارائین محترم بیٹی اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے ۔بیٹی کے موضوع پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور بہت کچھ باقی ہے ۔میرے دل میں بھی ابھی بہت سی باتیں ہیں ۔اگر زندگی رہی تو کبھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔میری ایک بہن نے مجھے گھر سے باہرکام کرنے والی عورتوں کے مسائل پر لکھنے کا حکم بھی دے رکھا ہے میں انشااللہ جلد اپنی بہنوں کے مسائل حکومت وقت کے سامنے لاؤں گا۔ تحریر امتیاز علی شاکر