ہے وہی آسماں، زمین وہی ماہ و انجم اسی طرح روشن کہکشاں اب بھی مسکراتی ہے پھول کلیاں مہک رہی ہیں یونہی بعد مدت کے سارے پردیسی اپنے اپنے گھروں کو آئے ہیں ہر طرف رنگ و بو کا میلہ ہے اور تنہا میں اپنے کمرے میں کب سے بیٹھی ہوں اور سوچتی ہوں جانے کیا بات ہے کہ گھر میں مرے جو گزشتہ برس تھی رونق، اب وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے فضا میں عجیب سناٹا ہاں فقط ایک تیرے جانے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے مجھے رُت خوشی کی تو ہر طرف آئی صرف چھوٹے سے میرے آنگن میں عید اب کے برس نہیں آئی