ربیع الاول کا مہینہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مسرتوں کی نویدلے کر آتا ہے۔مسلمان اس مہینے کی بارہ تاریخ کوچراغاں کرتے ہیں ،خوشیاں مناتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی عقیدتوں کاخراج پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہہ اپنے محسنین کویادرکھنااپنے ضمیرکی زندگی کا ثبوت فراہم کرناہے اوریہ ثبوت مسلمان صدیوں سے دیتے چلے آرہے ہیں۔مسلمان بارہ ربیع النور کے موقع پرمختلف اندازسے خوشیاںمناکراللہ اوراس کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوراضی ضرورکرلیتے ہیں۔عشق رسول بلاشبہہ اللہ عزوجل کی بڑی عظیم نعمت ہے اس کے بغیرعقبیٰ تودوراپنی دنیابھی صحیح ڈھنگ سے نہیں سنواری سجائی جا سکتی ۔ اسے المیہ کہیے یاامت مسلمہ کی بدقسمتی کہ اب کوئی بھی اسلامی روایت یاتیوہار ایسی باقی نہیں رہ گیا ہے جس میں نفسانیت،انانیت ،خودغرضی،اسراف ،ممنوع چیزوں کا ارتکاب وغیرہ کی شعور ی یالاشعوری طورپرآمیزش نہ ہوگئی ہو۔عیدمیلادالنبی کے موقع پربھی مسلمان بہت سارے کام ایسے کردیتے ہیں جنہیںکسی بھی طرح مستحسن نہیں کہا جاسکتا ۔
اس میں شعوراورلاشعوردونوں کادخل ہے ۔ اگربات یہاں تک ہوتی تب بھی ٹھیک تھا مگرمعاملہ اب اس حدتک پہنچ چکاہے کہ ہماری ان ممنو ع حرکتوں کی وجہ سے مسلمان اور اسلام بدنام ہو رہا ہے ۔ ان کی یہ حرکتیں نہ اسلام کے حق میں جاتی ہیں اورنہ کسی مہذب سماج کے بلکہ ان سے توشریعت کابھی مذاق بنتاہے ۔آئیے جائزہ لیں کہ ہم کہاں کہاںغلطی کررہے ہیں۔ عید میلاد النبی کے موقع پرپوری دنیامیں مسلمان اپنی اپنی روایت اوراندازسے جلوس نکالتے ہیں۔ہمارے یہاں ہندوستا ن میں بھی مسلمانوں کا شاید و باید ہی کوئی چھوٹایابڑاشہرایساہوجہاں جلوس عیدمیلادالنبی نہ نکالاجاتاہو۔یہاں کے مسلمان اپنی تہذیب اورمبلغ فکرکے حساب سے جلوس عیدمیلادالنبی کاانعقادکرتے ہیںاورحتی المقدورپیام سیرت عام کرنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن بہت سارے عمل ایسے بھی کرلیے جاتے ہیںجنہیں شریعت مذموم قراردیتی ہے مثلاًآتش بازی ، پٹاخہ بازی وغیرہ۔ بلاشبہہ اسلام کا ایسی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ۔اس موقع پرنہ ا س کی ضرورت ہے اورنہ یہ خوشی کے اظہار کاکوئی اندازہے ۔اس میں سراسرپیسے کا ضیاع ہے ،ماحولیاتی آلودگی بھی پھیلتی ہے جس سے کئی طرح کے نقصانات پیداہوتے ہیںاوربسااوقات اس سے جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ممبئی سمیت دیگربڑے شہروں میں دیکھاگیاہے کہ جلوس کے دوران میوز ک والی نعتوں پرنوجوان رقص کرتے ہیں ۔
یہ نہایت قبیح حرکت ہے۔ اسلام ہرگزاس کی اجازت نہیں دیتا۔یہ بڑی بے حیائی اوربے شرمی کی بات ہے۔ اس سے نعت کاتقدس تومجروح ہوتاہی ہے جلوس کی حرمت بھی پامال ہوتی ہے ۔یقین جانیے یہ حرکت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دل آزاری کاسبب بنتی ہے اس لیے اس سے فوراًبازآجاناچاہیے۔
یہ جلوس حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی خوشی میں نکالاجاتاہے اس کامقصدسیرت نبوی اورتعلیمات نبوی کوعام کرناہوتاہے ۔ا س لیے ا س اہم موقع پرجلوس نکالنے کے ساتھ ساتھ ایسے کام بھی کیے جاناچاہیے کہ جس سے دنیاوالوں پرمثبت اثرات مرتب ہوں،انہیں ایک اچھاپیغام مل سکے اوروہ اسلام اورمسلمانوں سے قریب ہوسکیں۔ہرسال میلادالنبی کاجشن آتاہے اورہم ہرسال بس رسم کے طورپرجلوس نکال لیتے ہیں مگرا س کے جوعظیم ترین مقاصدہیںا س سے دنیاوالے غافل ہی رہتے ہیں ۔
جلوس اورچراغاں دیکھ کرانہیں بس اتنامعلوم ہوجاتاہے کہ آج کے دن مسلمانوں کے پیغمبرپیداہوئے تھے ۔ا س کے سوانہ انہیں نبی کی سیرت سے آشنائی ہوپاتی ہے اورنہ وہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی اچھا میسیج وصول کرپاتے ہیں۔ یقین کیجیے جب تک اس نوعیت کے کام نہ کیے جائیں گے اس وقت تک عید میلاد النبی کاصحیح حق ادانہیں ہوگا،نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تئیں ہماری محبت اوران کی آمدپرہماری خوشیاں ادھوری ہی رہیں گی اورعید میلادمنانے کے وہ نتائج حاصل نہ ہوں گے جوہونا چاہیے۔ دراصل یہ موقع تعلیمات نبوی کوعام کرنے کاہوتاہے ۔حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جومقصدلے کرا س عالم میں جلوہ گر ہوئے اگرہم اس کوعملی جامہ پہنائیں تویقینایہ ایک بہت بڑاکام ہوگا۔یہ ملت کے لیے بھی نفع بخش ہوگااورپورے معاشرے کے لیے بھی مثلاًبھوکوں کوکھاناکھلایاجائے ، غریبوں کوکپڑے پہنائے جائیں ، مریضوں کی عیادت کی جائے ،غریب مریضوں کی امدادکی جائے ان کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے جائیں ،یتیم وبے سہارابچوں کے سروں پردست شفقت پھیراجائے اوران کی کفالت کاانتظام کیاجائے ۔ غریب اوربے سہارابچیوں کی شادی کاانتظام کیاجائے ۔اتحادواتفاق کی دعوت دی جائے۔ اسپتال اسپتال جاکرمریضوں کی عیاد ت کرکے انہیں پھل تقسیم کیے جائیں ۔ان سارے کاموں میں مسلم اورغیرمسلم کی کوئی تخصیص نہ رکھی جائے کیو ںکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں وہ پوری دنیاکے لوگوں کے لیے رحمت بن کرآئے ہیںلہٰذا ہم اس میں صرف مسلمانوں کو شامل نہیں کرسکتے۔جولوگ اسلام سے دورہیں یاجن لوگوں کے دلوںمیں اسلام سے نفرت بیٹھی ہوئی ہے ان کے لیے الگ سے پروگرام کیے جائیں اورانہیں اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیاجائے۔ یقینااس کے نتائج خیز اثرات برآمدہوں گے ۔
اپنے غیرمسلم دوستوں تک اسلام کاپیغام پہنچایاجائے انہیں اسلامی تعلیمات پرمبنی چھوٹی چھوٹی کتابیں تحفتاًپیش کی جائیں ۔اس خاص موقع پرایک اہم کام یہ بھی کیاجاسکتاہے کہ حضورکے نام پرغریب اورپڑھنے کے شوقیق بچوں یاذہین بچوں کی فیس کا انتظا م کیا جائے اورحسب استطاعت چھ مہینے ،ایک سال یادوسال یامزیدسالوں کے لیے ان کی تعلیم کاذمہ لیاجائے ۔آپ یقین کیجیے ا س سے جوفوائدحاصل ہوں گے وہ صدیو ں پر محیط ہوں گے۔ ہمارے ملک کے بعض شہروں میں جلوس عیدمیلادالنبی کے دوران بعض حضرات گھوڑو ںپرعربی لباس زیب تن کرکے اورہاتھو ںمیں تلواربلندکیے ہوئے بیٹھتے ہیں ۔ ہماری آج تک یہ سمجھ میں نہ آسکاکہ آخراس کامقصدکیاہے ؟
آپ کوشایداندازہ نہ ہو کہ ہمارے ا س عمل سے اسلام کے متعلق اس غلط فہمی کوتقویت ملتی ہے کہ اسلام تلوار کے زورپرپھیلاہے۔اس طرح کی رسم صدیوں پہلے انجام دی جاتی تھی مگرچوں کہ ہم میں سے اکثریت کے ذہن ودماغ کے سوتے خشک ہوچکے ہیںا س لیے ہمیں کوئی نئی بات سوجھتی ہی نہیں۔ بس روایت پراندھادھندچل پڑناہماراشیوہ بن چکاہے۔افسوس توا س بات ہے کہ ان علاقوں کے ذمے دارعلمااورقائدین ان کی صحیح رہنمائی بھی نہیں کرتے ۔ بے چارہ عوام اپنے علماکے پیچھے چلتے ہیںجب انہیں صحیح رہنمائی نہیں کی جائے گی توظاہرہے وہ وہی کام کریں گے جوپچھلے زمانے سے چلتا آرہا ہے ۔
ان کوکیامعلوم کہ زمانے کے تقاضے کیا ہیں اوراسلام کے تعارف کے نئے نئے طریقے کیاہوسکتے ہیں۔گھوڑوں پرتلوارلے کربیٹھنااوروہ بھی عیدمیلادکے اس اہم موقع پر اسلام کے تعارف کاکسی بھی طرح اچھاذریعہ نہیں ہوسکتا۔ا س لیے کوشش یہ کی جائے دنیاکواسلام سے قریب کرنے کے لیے زمانے کی نفسیات کے اعتبارسے نئے نئے طریقے وضع کیے جائیں۔ عید میلاد النبی کے ا س پرمبارک موقع پرحسب استطاعت انفرادی یااجتماعی طورپرہروہ کام کیاجاناچاہیے جوراست طورپراسلا م کے حق میں جاتاہو۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہیے کہ صرف مسلمان ہوجاناہی کافی نہیںہے بلکہ لوگوں کواسلام کی طرف بلانابھی ضروری ہے ۔یہ بلاناچاہے باالواسطہ ہویابلاواسطہ ۔اچھے اعمال سب سے بڑی اور سب سے مؤثرتبلیغ ہے ۔ا س کے جواثرات مرتب ہوتے ہیںوہ ہزاروں تقریروں اورہزاروں تحریروں سے بھی نہیں ہوتے ۔ہم سال بھرتواپنی اپنی خانگی اورمعاشی ذمے داریوں میں الجھے رہتے ہیں سال میں کم ازکم ایک دن توایسانکالیں کہ بہکے ہوئے لوگوں کواسلام کے متعلق بتاسکیں۔کیاہی اچھا ہوکہ بارہ ربیع الاول کا دن ہم ا سی کے لیے خاص کردیں اور یہ عہدکرلیں کہ آج کے دن کم ازکم ایک غیرمسلم کواسلام کی تعلیمات سے ضرورآشناکرائیں گے اوراسلام کے متعلق ا س کی غلط فہمی دورکریں گے۔
یہ ہماری کم نصیبی ہے عام طورپرہم لوگوںمیں سیرت کے حوالے سے ہماری معلومات واجبی سی ہیں۔افسوس یہ ہے کہ اہم اورضروری معلومات سے بھی ہم میں سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔حالانکہ مطالعۂ سیرت ہردورکی سب سے بڑی ضرورت رہی ہے اورآج کے حالات کے تناظرمیں اس کی اہمیت اوربھی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے سیرت کے مطا لعے کوبھی عام کرنے کی ضرورت ہے ۔عیدمیلادکے موقع پربچوںکے درمیان سیرت نبوی کے انعامی مسابقے منعقدکیے جائیں،لوگوں کوسیرت نبوی کے مطالعے پرابھاراجائے اورا س موضوع پراچھی اچھی کتابیں مختلف زبانو ںمیں مفت تقسیم کی جائیں۔ ہمیں یہ اچھی طرح یادرکھناچاہیے کہ جلوس عیدمیلادالنبی اس ذات گرامی سے منسوب ہے جو دنیا کا سب سے عظیم انسان ہے ا س لیے خداراایسی کوئی بھی حرکت نہ کی جائے جوان کی تعلیما ت وارشادات کے منافی ہو۔