بجٹ پیسا خرچ کرنے کے لیئے منصوبہ بندی کی تشکیل کا ایک عمل ہے ۔ اس میں آمدنیوں اور اخراجات کا معلوم ہوتا ہے اس لیئے بجٹ میں بچت، قرضوں کے حصول اور اخراجات کے لیئے باقاعدہ منصوبہ بندی شامل ہوتی ہے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ کاروباری ادارے اور خاندان بھی اپنا سالانہ بجٹ تشکیل دیتے ہیں جبکہ بہت سے خاندان اپنا بجٹ ہر ماہ بناتے ہیں۔ اس طرح یہ منصوبہ بندی کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ اپنی رقم کس طرح استعمال کی جائے۔ گزشتہ سال میں نے سرکاری ملازمین کو درپیش مسائل اور اُن کو دی جانے والی مراعات پر اپنے کالم میں چند گزارشات کی تھیں۔ امسال بھی بعض ملازمین تنظیموں نے اپنے مسائل اور مطالبات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گزارش کی ہے کہ میں اپنے کالم کے ذریعے ان کو ایوانِ اقتدار کے سامنے لائوں۔
تمام محکمہ جات حکومتِ پاکستان کے قائم کردہ ہیں۔ ہر محکمے کو اُسکے متعلقہ فرائض اور ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور ایک خاص دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہر ایک اپنے مشن کی تکمیل میں رواں دواں ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے تمام ملازمین خواہ ان کا تعلق وفاق سے ہو یا صوبوں سے حکومتِ پاکستان کے ملازمین ہیں اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں یکساں کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ان خدمات کے صلے میں ملازمین کو سرکاری خزانہ سے تنخواہیں اور دیگر مراعات ادا کی جاتی ہیں۔ تنخواہوں اور مراعات کی مد میں دیئے جانے والے پیکیجز کا ہر سال جائزہ لیا جاتا ہے اور ضروریات زندگی اور معاشی و اقتصادی حالات کے پیش نظر ان میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے بعض حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ تمام ملازمین حکومتِ پاکستان کے خدمت گار ہیں اور ہر ملازم ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کرتے ہوئے وہ فرائض سرانجام دیتا ہے جو اسے محکمہ کی جانب سے تفویض کئے جاتے ہیں لیکن ایک جیسا کام کرنے والے اور یکساں تعلیمی و فنی صلاحیتوں کے حامل افراد کو دی جانے والی سرکاری تنخواہوں اور مراعات میں کافی فرق ہے۔
بعض محکموں کے ملازمین کو دو گنا تنخواہیں اور الائونسز ادا کیئے جاتے ہیں، بعض کو الائونسز اور اچھے پیکیجز کی مد میں نوازا جاتا ہے جبکہ بعض کو صرف سادہ تنخواہ اور الائونسز دیئے جاتے ہیں۔ جب اس طرح کی صورتحال درپیش ہو تو کم مراعات یافتہ لوگوں میں مایوسی پھیل جاتی ہے۔ ملازمین کی تنظیمیں بھی ان مسائل کو اٹھا رہی ہیں اور یہی مطالبات کیئے جا رہے ہیں کہ تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کو یکساں تنخواہیں اور مراعات دی جائیں اور آمدہ بجٹ میں تنخواہوں اور دیگر مراعات کا جائزہ موجودہ مہنگائی اور اقتصادی و معاشی حالات کے پیش نظر کیا جائے۔ کوئی بھی ملازم خواہ اس کا تعلق سرکاری شعبہ سے ہو یا پرائیویٹ شعبہ سے جب تک اس کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہوں گی اس سے اچھی اور حوصلہ افزاء کارکردگی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ہمارے ملکی حالات اور رسم و رواج بھی کچھ اس طرح کے ہیں کہ گھر کا ایک فرد کماتا ہے اور باقی سب بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، روزمرہ اخراجات، شادی بیاہ، علاج معالجہ وغیرہ کا بندوبست صرف اسی ایک شخص کو کرنا پڑتا ہے جو برسرروزگار ہے یا کھیتی باڑی یا کوئی اور کام کرتا ہے اور اسی شخص سے دیگر معاشرتی ذمہ داریوں میں بھی حصہ لینے کی توقع رکھی جاتی ہے۔
Fountain Pen on Ledger
ہماری آدھی سے زیادہ آبادی بے کار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ وسائل کی عدم دستیابی، گھریلو صنعتوں کا فقدان اور معاشی ناہمواری ہے۔ بیروزگاری اور خطِ غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ توانائی کے بحران اور بدامنی نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی زرعی ملک ہے لیکن ایک کثیر رقبہ بنجر پڑا ہوا ہے اور اس کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔بدامنی اور دہشت گردی کے ناسور نے سیاحت اور سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر رکھے ہیں۔ جن لوگوں کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتیں مجبوراً وہ قانون شکنی کرتے ہوئے جرائم کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس طرح اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں حکومت کو جرائم کی شرح کنٹرول کرنے کے لیئے کثیر سرمایہ لگانا پڑتا ہے لیکن پھر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔
سرکاری ملازمین کے علاج معالجہ کی سہولت کو دیکھا جائے تو اس وقت حکومت گریڈ ایک سے پندرہ کے ملازمین کو صرف ایک ہزار روپے ماہانہ میڈیکل الائونس کی مد میں ادا کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب اگر کوئی سرکاری ملازم یا اسکے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہو جائے اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑ جائے تو ڈاکٹر ایک دفعہ کی چیکنگ، تشخیص اور ٹیسٹوں کی مد میں کم از کم دو ہزار روپے وصول کر لیتا ہے اور بیمار کو ہسپتال لانے اور واپس لے جانے میں جو ٹرانسپورٹ اخراجات پڑتے ہیں وہ اسکے علاوہ ہیں۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیکل الائونس کی مد میں صرف ایک ہزار روپیہ بہت کم ہے۔ اس سلسلہ میں خصوصی طور پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کنوینس الائونس کی مد میں اضافہ پٹرولیم قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں کے پیش نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی، سوئی گیس، ٹیلیفون اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے لیئے یوٹیلٹی الائونس کا اجراء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
Year 2008
وفاقی حکومت کے ملازمین کو شادی گرانٹ کی مد میں صرف ایک بچی یا بچے کی شادی کے لیئے پچاس ہزار روپے دیئے جاتے ہیں۔ یہ سہولت کم از کم دو بچوں کی شادی تک رکھی جائے اور اس گرانٹ کو بڑھا کر کم از کم ایک لاکھ روپیہ کیا جانا چاہئے۔ مکان کرایہ کی مد میں 2008ء کی بنیادی تنخواہ پر الائونس انتہائی کم ہے۔ جن ملازمین کے پاس سرکاری رہائش گاہیں نہیں ہیں بالخصوص ایک سے سولہ گریڈ تک کے ملازمین اپنی آمدن کا پچاس سے ستر فیصد تک مکان کرایہ کی صورت میں ادا کرنے کے لیئے مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ہائرنگ کی تفاوت کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملازمین کی اکثریت خواہش مند ہے کہ سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ اور ملازمین کو ہائوس رینٹ کی ادائیگی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں سرکاری ملازمین کو سیر و تفریح کے لیئے ”ریکریشن الائونس” دیا جاتا تھا جسے بعد میں آنے والوں نے ختم کر دیا۔ سرکاری ملازمین کا بھی حق ہے کہ وہ کم از کم سال میں ایک بار اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سیر و تفریح کے لیئے نکلیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ”ریکریشن الائونس” اور ”ریکریشن چھٹی” کا سلسلہ دوبارہ جاری کیا جائے۔بعض اداروں میں ملازمین کی ترقی (پروموشن) کا مسئلہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا نظام اخذ ہونا چاہئے کہ ہر ملازم کو دوران سروس کم از کم ہر پانچ سال کے بعد ترقی ملے۔ اس طرح ملازمین کی کارکردگی بہتر ہوگی اور مایوسی کا عنصر بھی ختم ہو جائے گا۔
Pakistan Peoples Party
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے ہر دور میں ملازمین کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، سب سے زیادہ روزگار دینے اور تنخواہوں میں سب سے زیادہ اضافہ کرنے کا کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہی جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی پیپلز پارٹی نے ملکی معاشی و اقتصادی حالات اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے ملازمین کو اچھے پیکیجز دیئے ہیں لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو موجودہ طوفانی مہنگائی کے دور میں ملازمین کا گزر اوقات انتہائی مشکل ہے۔ گزشتہ دنوں یوم مئی کے موقع پر وزیراعظم صاحب نے مزدور کی کم از کم تنخواہ آٹھ ہزار روپے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے نو ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اگر پانچ افراد پر مشتمل گھرانہ ہو اور ان کے پاس اپنا مکان بھی نہ ہو یعنی کرایہ کے مکان میں رہتے ہوں تو کیا ان آٹھ یا نو ہزار میں ایک مزدور پورا مہینہ گزار سکتا ہے۔ اس رقم سے مزدور نے بیوی بچوں کی کفالت بھی کرنی ہے، بجلی، سوئی گیس اور پانی کا بل بھی دینا ہے، بچوں کے تعلیمی اور علاج معالجہ کے اخراجات بھی کرنے ہیں، روزانہ جائے کار پر آنے اور واپس جانے کا کرایہ بھی دینا ہے اور دیگر معاشرتی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں۔
ملازمین بالخصوص کم تنخواہ دار طبقہ کی نگاہیں آمدہ بجٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وزیراعظم صاحب تو بار بار کہہ رہے ہیں کہ اچھا ریلیف دیا جائے گا، یہ ریلیف کس کو کتنا ملتا ہے اس کا اندازہ تو بجٹ کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔ بہرحال وزیراعظم یوسف رضا گیلانی واحد لیڈر ہیں جو غریب طبقات کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کے لیئے کوشاں بھی ہیں۔ اتحادی جماعتوں، اپوزیشن اور صوبائی حکومتوں کو بھی ان مسائل کے حل میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ ایسا غریب دوست بجٹ پیش کیا جائے جس کے نتیجے میں غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ نہ پڑے اور انہیں سہولیات دی جائیں۔ اب یہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پر منحصر ہے کہ وہ سرکاری ملازمین اور عام لوگوں کو ریلیف دینے کے لیئے اپنے ماہرانہ انداز کا اظہار کیسے کرتے ہیں۔
آمدہ بجٹ بارے حکومت جس طرح کے دعوے کر رہی ہے اس سے سرکاری ملازمین یہی اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید جمہوری حکومت کا پانچواں بجٹ غریب دوست ہوگا کیونکہ خود وزیراعظم صاحب بھی اپنی معاشی ٹیم کو یہ ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ آئندہ بجٹ عوام دوست ہونا چاہئے۔