ہمارا نہری نظام جو دنیا کا بہترین نہری نظام ہے آ ج کرپشن، پانی کی غیر منصفانہ اور غیر یقینی تقسیم،پانی کی بڑھتی ہوئی چوری اور انتظامیہ کا اس پر قابو پانے میں ناکام رہنا ،پانی کی تقسیم سے متعلقہ جھگڑوں پر انتظامیہ کا بروقت اقدام نہ کرنا اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر ،نہری نظام کی بڑی نہروں اور راجباہوں کے کناروں اور تعمیرات کی ناکامی و مرمت ،شکستگی میں اضافہ محکمہ آبپاشی کے انتظامی و تکنیکی معاملات کو غیر شفاف انداز میں با اثر افراد، وڈیروں، سیاستدانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرنا اورمحکمہ آبپاشی کے عملہ پر کسانوں کا اعتماد نہ ہونا یہ مسائل عام تھے اور آج بھی کچھ علاقوں میں ہیں ۔ نہری نظام میں با اثر طبقات کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے زراعت سے متعلقہ اور دیگر شعبوں کے علاوہ امداد دینے والے اداروں کی نظر میں بھی نہری انتظامیہ کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہو گئی۔تمام حالات کے پیشِ نظر اور مزکورہ مسائل پر قابو پانے کے لئے تمام صوبوں کی اسمبلیوں نے 1997ء میں پیڈا ایکٹ کی منظوری دے کر ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹیاں بنا دی گئیں اور ایکٹ کے مطابق صوبوں کے آبپاشی کے محکمے اتھارٹیوں میں ضم ہوگئے۔پنجاب میں ” پنجاب ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی” (پیڈا) کے نام سے اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور پیڈا کے صرف دو سو کے قریب ملازمین نے نہ صرف حکومتی ریونیو (آبیانہ ) اکٹھا کرنے میں مدد دی بلکہ اس نظام کی کامیابی کے لئے دِن رات ایک کرکے پیڈا ایکٹ کو کامیاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اتھارٹی کے اِن دو سو کے قریب ملازمین نے اس نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا جو عزم کیا۔امید ہے ،پیڈا، اس نظام میں تمام خامیاں دور کر کے ہر نہر کی ٹیل تک پانی پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مستقل بنیادوں پر تشکیل دی جانے والی پیڈا اتھارٹی کے ملازمین جو گزشتہ13برس سے کنٹریکٹ پر دھکے کھا رہے ہیں جبکہ مزکورہ ملازمین میں سے چند ملازمین کی وفات کے بعد اُن کی بیوائوں اور یتیم بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ،آج اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹیفیکیشن برائے ریگولرائزیشن پر عمل درآمد کرتے ہوئے پیڈا اتھارٹی کے ملازمین کو ریگولر کر دیا جاتا تو شائد مزکورہ بیوائوں اور یتیم بچوں کو دربدر کے دھکے نہ کھانے پڑتے۔،پیڈا ،کے 200کے قریب غریب ملازمین 13 بر س سے دھکے اس لیئے کھا رہے ھیں کیونکہ یہ چھوٹے ملازمین ہیں ۔اگر یہ بھی DMG یا PCSافسران ہوتے تو انکو بھی کوئی مسلئہ نہ ہوتا۔ مگر کیا کیا جائے یہ سب کے سب چھوٹے اور غریب ملازمین ہیں۔آج تک انکی حکومت نے سنی اور نہ اپوزیشن کو خیال آیا۔،پیڈا،کے افسران نے بھی انکی طرف توجہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ پاکستان میں ہزاروں ایسے ملازمین ہیں جو سیاستدانوں ،بڑے عہدوں براجمان افسران کے رشہ دار یا پھر بھاری رشوت دینے والے لوگوں کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے اور کب کنفرم مگر غریب اور بے آسر ا سینکڑوں ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔پاکستان بھر کے پریس کلبز کے سامنے اکژ احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر احتجاج کرتے ہیں تو تشدد اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض سیاستدان اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کتنے ملازمین ایسے ہیں جن کو فارغ کرا کر نئے لوگ بھرتی کیے جا سکتے ہیں اور اس مد میں کتنی رقم کمائی جا سکتی ہے۔،پیڈا،کے دو سو کے قریب ملازمین پنجاب حکومت سے اپنا حق مانگ رہے ہیںمگر تیرہ سال ہوگئے انکی کسی نے نہیں سنی۔ یہ کدھر جائیں کس کو فریاد کریں۔ خادم اعلی پنجاب کو چاہئے کہ ان دو سو ملازمین کی بھی سنیں اور ان کے مسلئے کو ترجیح دیں ۔دو سو خاندانوں کی دعائیں ملیں گیں۔شائد یہی نجات کا ذریعہ بن جائے۔ تحریر : ممتاز احمد بھٹی