فرد جرم کیخلاف وزیراعظم کی اپیل خارج

Supreme Court

Supreme Court

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فرد جرم کے خلاف وزیراعظم کی اپیل خارج کر دی ہے۔ اس سے قبل اعتزاز احسن نے وزیراعظم سے بات کرنے کیلئے پندرہ دن کی مہلت مانگی جو عدالت نے مسترد کر دی۔

وزیراعظم کی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم اگر خط لکھ دیتے تو بہتر ہوتا۔ وزیر اعظم کو فیصلے کی خلاف ورزی کا احساس ہونا چاہئے۔ وزیر اعظم کو علم ہونا چاہیئے کہ عدالت ریاست کا اہم ستون ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اکتوبر کے بعد این آر او کیس کی ایک سال تک سماعت ہی نہیں ہوئی،وزیر اعظم سمجھے کہ عدالت مطمئن ہو گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حضرت عمر، قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ان سے امتیاز نہیں برتا گیا۔ وزیر اعظم کے ساتھ عدالت میں امتیاز نہیں برتا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شو کاز نوٹس کا تحریری جواب دیا جاتا ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں عدالت نے تحریری جواب کا نہیں کہا۔ ایسا عدالتی حکم جس میں وجوہات بیان نہ کی گئی ہوں عدالتی حکم تسلیم نہیں ہوتا۔ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے کر وزیر اعظم سے نا انصافی کا ازالہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے سوال کیا کہ دائل کے لئے آپ کو کتنا وقت درکار ہے۔ اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ آپ نے پی سی او ججز کو بہت وقت دیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاآپ دیوانی مقدمات کے فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، فوجداری مقدمات کے فیصلوں کا حوالہ دیں۔ پی سی او ججز کا کیس کچھ اور تھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا میں آپ سے سوال کر سکتا ہوں جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ان سے سوال نہ کئے جائیں، دلائل کا وقت کم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مزید وقت بھی دے سکتے ہیں۔ آپ نے کل 7 گھنٹے دلائل دئیے جو قابل تحسین ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی موجودگی میں فرد جرم عائد کیے جانے کاحکم جاری ہونے کی نوبت آنی ہی نہیں چاہئے تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتے ہیں اسی لیے 18 ویں ترمیم پر ہم نے فیصلہ نہیں دیا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم سے بات کرنے کیلئے پندرہ دن کی مہلت دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن جیسا قدآور وکیل ایسی بات کر رہا ہے تو ہمیں افسوس ہے۔

اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو یہ حکم جاری کرنے سے پہلے وزیر اعظم کا موقف تفصیل سے سننا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو دو دن تک سنا گیا، اس کے بعد یہ فیصلہ آیا۔

اس سے قبل اعتزاز احسن نے آج صبح ساڑھے نو بجے اپنے دلائل کا آغاز کیا جو سوا گیارہ بجے تک مکمل ہوئے۔ جس کے بعد عدالت نے فیصلہ لکھوانا شروع کیا۔دوران دلائل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ اپنا کیس بہتر اندازمیں پیش نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ عدالت کے چھ آپشن وزیر اعظم کے خلاف نہیں تھے۔ وزیر اعظم یہ نہ سمجھیں کہ سات رکنی بنچ نے ان کے خلاف سخت الفاظ استعما ل کیے۔

اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو یہ حکم جاری کرنے سے پہلے وزیر اعظم کا موقف تفصیل سے سننا چاہئے تھا۔ مخالف فریق کو تفصیل سے سننے کا حق قانون نے دیا ہے۔ اس حق کا مقصد یہ ہے کہ عدالت مکمل طور پرمطمئن ہو اور انصاف کا تقاضا پورا کر سکے۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ نے جو موقف سات رکنی بنچ میں بیان کیا وہی باتیں یہاں بھی کیں اور ہم نے بھی سن لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کی شان میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتے۔ انھیں خود احساس ہونا چاہئے کہ عدلیہ کیا ہے۔ توہین عدالت آرڈیننس کے تحت فرد جرم عائد کرنے کے حکم میں تفصیلی وجوہات بیان کرنا ضروری ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ بنچ نے وزیر اعظم کے بارے میں کہا کہ وہ بد دیانت ہیں صادق اور امین نہیں۔

اس سے قبل اسلام آباد میں سپریم کورٹ روانگی سے قبل ذرائع سے خصوصی بات چیت میں وزیراعظم کے وکیل بیرسٹر اعتز ازاحسن نے کہا کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں دوران سماعت عدالت کو جذباتی طور پر بلیک میل کر نے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وکیل کو ہمیشہ پر امید ہی رہنا چاہئے۔