مسلمانوں کے ایمان کے لیے تین بیماریاں تباہ کن ہیں ۔(١)تکبر(٢)حسد (3)لالچ یہ تین مذہوم افعال ہیں جن سے اس دنیا میں انسانی زندگی کا آغاز ہوا اور حق تعالیٰ کی اولین نافرمانی ہوئی انہیں بیماریوں کی وجہ سے کزشتہ 65سالوں سے پاکستان سیاسی اور اقتصادی استحکام سے محروم رہا ہے۔ارشاد نبوی ۖہے کہ جس شخص میں رائی بھر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔یہ تکبر بھی انسان کوفرعون بنادیتا ہے پھر وہ خدائی کا دعویٰ کربیٹھتا ہے ۔
حسد اور لالچ جیسی برائیاں انسان کی قاتل ہیں ۔یہ بیماریاں انسان سے ایسے ایسے کام کرواتی ہیں جن کے کرنے سے انسان دنیا و آخرت دونوں میں رسوا ہوجاتا ہے ۔ اگر اس حدیث مبارکہ سے سبق سیکھیں اور حال وحرام مال کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جمع نہ کریں تو پھر دنیا میں کہیں بھی کوئی جرم نہ رہے ۔ہمارے ہاں تھانہ کلچر کو بہت برا سمجھا جاتا ہے ۔اس بات میں بڑی حد تک حقیقت ہے کہ پنجاب پولیس میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں ۔لیکن قابل غور اور قابل فکر پہلویہ ہے کہ ان ساری خرابیوں کی ذمہ دار ی صرف پنجاب پولیس نہیں ہے ۔بلکہ اس برے نظام کو بنانے اور چلانے میں کسی نہ کسی طرح ہم سب ذمہ دار ہیں ۔
police Pakistan
محکمہ پولیس میں پیداشدہ خرابیوں کی سب سے زیادہ ذمہ داری جاگیرداروں ‘وڈیروں ‘سرمایہ دارں’اوران سرکاری آفیسروں پر عائد ہوتی ہے ۔ جوریاست کی بجائے پولیس کواپنے حکم کے تابع رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں یہ لوگ بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں ۔لیکن ان بہت سی خرابیوں کے باوجودپنجاب پولیس کی بہتر کارکردگی و محنت کی بدولت آج صوبہ پنجاب میں امن و امان کی صورت حال دوسرے صوبوں سے قدرے بہتر اور تسلی بخش ہے ۔
جس سے پنجاب پولیس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔کسی بھی ریاست میں عوام کی جان ومال ،عزت وآبروکاتحفظ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ہماری ریاست نے یہ ذمہ داری محکمہ پولیس کوسونپی ہے۔بد قسمتی سے ہمارا محکمہ پولیس آزاد نہیں جاگیرداروں ‘وڈیروں ‘سرمایہ داروں’اور سیاست دانوں کا غلام سا بن کے رہ گیا ہے ۔ ہمارے ملک کی پولیس غفلت ولاپرواہی کی وجہ سے اپنی ڈیوٹی میں سدا سے بدنام رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں سے لے کر عام زندگی میں بھی محکمہ پولیس کا کردارہمیشہ منفی ہی نظرآیا ہے۔پولیس تھانوں میں جوکچھ ہورہا ہے اس سے کون واقف نہیں ہے بے گناہوں اورغریب لوگوں کی دادرسی صرف اس لیے نہیںہو پاتی کہ وہ غریب ہیں ۔اور غریب کوکسی قسم کا انصاف چاہیے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ساتھ کسی جاگیرداریا وڈیرے کو لائے یا پھر جاگیر دار اپنے ڈیرے پر پولیس افسر کو بلاکر ہدایات دے ۔
تھانوں میں رشوت ستانی اور اقربا پروری عام ہے ۔لیکن اگر ہم یہ سارے الزام پورے محکمہ پولیس پر لگائیں تو یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ کوئی بھی محکمہ یا ادارہ غلط نہیں ہوسکتا ۔ہاں اس میں کام کرنیوالے کچھ لوگ ضرور غلط ہوسکتے ہیں ۔یہی چند لوگ ادارے کا وقار خاک میں ملا دیتے ہیں ۔اردوکا ایک محاورہ ہمارے ہاں بہت عام ہے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالا ب کو گندہ کردیتی ہے۔آج ہم جس مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ۔ہر ذی شعور شہری محکمہ پولیس سے اس گند کو صاف دیکھنا چاہتا ہے ۔
اب توہرکوئی یہی کہہ رہا ہے کہ اگرمحکمہ پولیس اپنا قبلہ درست کرلے توپاکستان کے آدھے سے زائد مسائل خودبخودحل ہوجائینگے۔کیونکہ اکثرپولیس والے چوروں ،ڈکیتوں اور خطرناک مجرموں کویا تو پیسوں کے لالچ میں تحفظ دیتے ہیں یا پھربڑے لوگوں جن میں ہمارے سیاستدان بھی شامل ہیں کہ ڈراور خوف ،اور دھمکیوں میں آجاتے ہیں۔اور ویسے بھی جہاں انصاف نہیں ملتا وہاں بدامنی اور جرائم بڑھتے ہی رہتے ہیں۔جہاں پاکستان میںقتل وغارت،کرپشن،رشوت خوری،زنا بالجبر،فرقہ وارانہ،خودکش حملوں ،بم دھماکوں اور دیگرگھنائونے جرائم کی فہرست میں نمایاں پوزیشن پرہے۔جرم کسی بھی حالت میں جرم ہوتا ہے خواہ کوئی غریب کرے یا امیرر یاست کا قانون سب کے لیے برابر ہے ۔
کوئی بھی ریاست تب تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک قانون کی بالا دستی قائم نہ ہو’جب تک نوجوان نسل کو معیاری صحت وتعلیم کے ساتھ ساتھ مناسب روزگار مہیا ء کیے بغیر کوئی بھی ریاست کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی ۔لیکن بد قسمتی سے ہم نے اپنے بچوں کے ہاتھوں قلم اور کتاب کی بجائے اسلحہ اور موبائل تھما کر منشیات کی خرید وفروخت عام کردی ہے ۔مسائل تو ہمارے معاشرے میں بہت ہیں لیکن آج میرا دل کہہ رہا ہے کہ صرف اور صرف منشیات کا ذکر کیا جائے ۔ نشہ وہ لعنت جس نے ملک قوم کی نوجوان نسل کو دیمک کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
drugs
چرس بھرے سگریٹ میںسکون تلاش کرنے والے لوگ اپنے آپ کو اندھے کنویں میں دھکیل رہے ہوتے ہیں۔جس سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہے اس وقت دنیا بھر میں تقریبا سوا ارب سے زائد افراد تمباکونوشی کرتے ہیں ۔تمباکونوشی کی وجہ سے ہر چھ سیکنڈ بعد دنیا سے ایک تمباکونوشی کا عادی شکار موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ۔چرس ‘ہیرون ‘شراب اور دیگر نشو ں کے عادی سالانہ دولاکھ افراد موت کا شکار ہوتے ہیں۔
منشیات کی روک تھام کے لیے پورے معاشرے کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔خاص طور پر والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرناہوگا۔یہ بات درست ہے،کہ جرائم کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری محکمہ کی ہے لیکن اکیلی پولیس جرائم کو ختم نہیں کرسکتی جرائم کے خاتمے کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ ہرشہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔راقم اس بات کا قائل نہیں کہ صرف دوسروں کو سبق دیا جائے اور خود عمل نہ کیا جائے اس لیے میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ میں جرائم کے خاتمے لیے پولیس کاساتھ دوں ۔راقم نے اسی سلسلہ میں کچھ دن قبل ایس ایچ اوکاہنہ تھانہ چودھری شریف سندھوکے ساتھ ایک ملاقات کی۔شریف سندھو سے ملنے کا فیصلہ ان کے عوامی خدمت کے جذبے کو دیکھتے ہوئے کیا۔
اس موقع کالمسٹ کونسل آف پاکستان ”CCP”کے صدرمعروف کالم نگار ایم اے تبسم، ”CCP”کے لیگل ایڈوائزرمحمدرضا ایڈووکیٹ ،سینئرصحافی سیدزاہدحسین شاہ ،ممتاز تاجررہنماء رائوناصرعلی خان میئوودیگربھی ہمراہ تھے،شریف سندھوابھی کچھ روز قبل ہی ایس ایچ او کاہنہ تھانہ تعینات ہوئے ہیں ۔
محمد شریف سندھونے بتایا کہ انہیں خاص طور پر کاہنہ نومیں ان کے اعلیٰ آفیسرز(ایس پی) ماڈل ٹائون اطہروحید،(ڈی ایس پی کاہنہ سرکل )شکیل احمدکھوکھرنے کاہنہ میں جرائم کے خاتمے کے لئے تعینات کیا ہے تاکہ علاقے سے جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے،میں اپنے قارئین کوبتانا چاہتا ہوں کہ کاہنہ ایک قصبے کا نا م ہے جو فیروزپورروڈپر لاہور اورقصورکے درمیان میں واقعہ ہے ۔
Police
یہ علاقہ جرائم کے حوالے سے پورے پاکستان میں مشہور ہے ۔ چندروزقبل تھانہ کاہنہ کے نواح میں ایک ہولناک واردات کا انکشاف ہوا کہ آزادٹائون میں ایک غریب شخص محمد وارث کی 11سالہ بچی مافیہ کوبابر نامی نوجوان نے اغوا کرلیا،اور ذیادتی کا نشانہ بنا نے کے بعد قتل کرکے بعدازاں اس کی لاش کوجلا ڈالا جس پر مقامی لوگوں نے شک گزرنے پر تھانہ کاہنہ میں اطلاع دی ،اطلاع ملتے ہی ایس ایچ او محمدشریف سندھواپنے عملے کیساتھ جائے واردات پر پہنچااور واقع کا بغورجائزہ لیا،علاقے کے لوگوں نے بابرنامی نوجوان کی نشاندہی کی ،اور پولیس نے بابر نامی شخص کی تلاش شروع کردی تھوڑی دیر میں ہی پولیس کا ملزم سے سامنا ہوگیا جس پر ملزم نے خوف زدہ ہوکر پولیس پر فائرنگ کردی پولیس کی جوابی فائرنگ سے بابرنامی نوجوان ہلاک ہوگیا ،بابر کے ورثا نے نعش لینے سے بھی انکار کردیا ہے ۔
آزادٹائون کے رہنے والوں نے بتایا کہ اس داردات سے پہلے بھی علاقہ میں اسی طرح کی تین دارداتیں ہوچکی ہیں جن میںمنظور مسیح کے دوبچے جن میں تین سالہ بیٹا اور سات سالہ بیٹی شامل ہے کو بھی اسی طرح زیادتی اور بد فعلی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔جبکہ ایک بچہ جو حالیہ قتل ہونیوالی 11سالہ بچی کا کزن تھا وہ بھی اسی طرح کی ایک وادات میں قتل ہوچکا ہے ۔ راقم اس واقعہ کی تصدیق کرنے جب آزاد ٹائون پہنچا تو یہ دیکھ اور سن کر حیران رہ گیا کہ لوگ پولیس اور خاص طور پر ایس ایچ او کاہنہ تھانہ چودھری شریف سندھو کے لیے بہت زیادہ دعا ئیں کررہے تھے ۔علاقہ میں ہونے والے جرائم کی فہرست تو بہت لمبی ہے ۔لیکن راقم کو سب سے زیادہ پریشانی منشیات کی کھلے عام فروخت سے ہوتی ہے۔
لیکن جب سے چودھری شریف سندھوایس ایچ او کاہنہ تعینات ہوئے ہیں تب سے مقامی منشیات فروش یاتو کاہنہ تھانہ کی حدود سے نکل گئے ہیں یا منشیات فروشی کاغلیض کاروبار بند کرچکے ہیں ۔
وہ اس لیے کہ آج سے دوسال قبل بھی چودھری شریف سندھو ایس ایچ او کاہنہ رہ چکے ہیں اس دور میں شریف سندھو نے تقریبا تمام منشیات فروشوں کو جیل بھیج دیا تھا ۔شریف سندھو کی دوبارہ تعیناتی نے منشیا ت فروشوں کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ میں خود پچھلے تیس سال سے کاہنہ کی گلیوں میں سرے عام منشیات کی خرید وفروخت دیکھ رہا ہوں ۔ ان موت کے سوداگروں کے خلاف ہزاروں شکایات تھانہ میں درج ہیں اور ہزاروں بار یہ لوگ کرفتار بھی کیے جاتے ہیں لیکن یاتوپولیس کو رشوت دے کر چھوٹ جاتے ہیں ،یاپھرعدلیہ ان موت کے سوداگروں کو ضمانت پر رہا کردیتی ہے ۔شریف سندھو وہ پہلے پولیس آفیسر ہیں جنہوں نے کاہنہ میں جرائم پیشہ افراد کو ٹف ٹائم دیا ہے ۔
علاقہ میں جگہ جگہ ایس ایچ او چودھری شریف سندھو کی جانب سے بینرزاورپوسٹر لگے نظر آتے ہیں جن میں لکھا ہے کہ سود خوروں ‘منشیات فروشوں ‘غنڈہ گردعناصر اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف عوام میرا ساتھ دے تاکہ علاقعہ کوجرائم سے پاک کرسکوں ۔علاقہ کے عوام چودھری شریف سندھو ‘ڈی ایس پی اورمحکمہ پولیس کودعائیں دے رہے ہیں۔علاقے کی عوام کا کہنا ہے کہ اللہ کرے کہ ایسے پولیس افسر اور محب وطن لوگ پورے پاکستان میں تعینات ہوجائیں۔تاکہ ہمارا پیارا ملک پھرسے امن کا گہوارا بن سکے، تاکہ مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح کی سوچ کوعملی جامہ پہنایا جاسکے۔ تحریر:امتیازعلی شاکر