اس مضمونِ خاص کی ابتدا انور مسعود صاحب کے ان اشعار کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ موضوع کے اعتبار کو دیکھتے ہوئے آج شعر و شاعری کو بھی شاملِ مضمون کروں گا تاکہ کم لفظوں میں زیادہ بات سمجھ میں آ سکے ویسے بھی یہ شاعروں کا ہی کمال ہے کہ کم لفظوں میں زیادہ باتیں سمجھا دیتے ہیں اسی لئے تو شاعری بھی اپنی مثال آپ ہوتی ہے۔
یہ جو فرقہ پرستیاں ہیں یہاں
ان کے بارے میں اور کیا کہیئے اس عذابِ الیم کو انور
بد نصیبی کی انتہا کہیئے پاکستان کی تاریخ میں چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وہ تاریخ ہے جب انگریز وں نے ملک کو چھوڑتے وقت ہندوستان کے حصے کرتے ہوئے ہمیں پاکستان جیسا ملک قائد اعظم کی سربراہی میں قائم کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ اُس پارٹیشن کے بعد ہجرت کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی مثال آج بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔اس کے بعد یہاں جو مشترکہ معاشرت کا تصور اور آپسی میل محبت کا رجحان تھا وہ آج ناپید ہے۔ پیار محبت آج دشمنی میں تبدیل ہو گئی ہے۔
انسان کو انسان سے ہی ڈر لگنے لگا ہے ۔ چنانچہ آزادی کے کچھ عرصہ بعد سے جو ملکی سیاست میں تشدد، فرقہ پرستی اور علاقائی عصبیت کو بھرپور فروغ حاصل ہوا اس طرح پاکستان کے ہر شہر میں فرقہ واریت کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ دراصل پاکستان میں فرقہ واریت کے رجحان کا نقطۂ عروج اس وقت سامنے آیا جب علاقائی تعصب نے جنم لیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی پاکستانی نہیں ہے۔ اگرہے تو کوئی پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پختون ، ہزارے وال۔ اور اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج پاکستان میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ہے تو کوئی سنی، شیعہ، دیو بندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور نہ جانے کیا کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں رسوا ہو رہے ہیں۔ مغرب والے خوش ہو رہے ہیں وہ اپنے مقاصد میں خاصی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا جب ہم سب ایک ہونگے۔ اگر ہم صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ ہمارا رب ایک ہے، رسول ۖ ایک ہے، قرآن ایک ہے، خانہ کعبہ ایک ہے ، تو میرا نہیں خیال کہ ہمیں یکجا ہونے سے کوئی طاقت روک سکتی ہے۔
Muslim Riots
ایسا لگتا ہے کہ آج پاکستان میں مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ فسادات کو پسند کرتے ہیں ۔ آج بھی ہمارے ملک میں بنیادی اتحاد موجود ہے اور یہی اتحاد ہر مشکل اور مصیب کے وقت ہمارے کام آتا ہے۔ ہمارے ملک میں فرقہ واریت جس طرح بھی موجود ہے وہ کوئی مذہبی نہیں ہے بلکہ اس کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو جنم دیا جا رہا ہے جو ملک کی ترقی اور عوام کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ آج بھی حکومت کے پاس نمبروں کی گنتی پوری ہے مگر ان کی اخلاقی قوت کہاں ہے ؟ آپ مانیں یا نہ مانیں حکومت اخلاقی قوت سے ہی چلتی ہے ورنہ وہ گھسٹتی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ تمام اتحادیوں کے مشورے سے دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھے تاکہ عوام کا کچھ تو بھلا ہو۔ آج پھر پیٹرول بم گرا دیا گیا ہے۔ پیٹرول تقریباً ٥٥۔١٠٤ روپئے لیٹر کر دیا گیا ہے کیا اس ملک کے عوام صرف مہنگائی سہنے کیلئے ہی رہ گئے ہیں۔ اسی لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت دوبارہ حکومت کرنے کی اخلاقی طاقت نئے سرے سے حاصل کرے، انتظامی لقوے پن کو دور کرے، عوام کو لگے کہ ملک میں کوئی حکومت ہے، کوئی قائد ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ ایسا کرے گی مجھے یقین نہیں ہے؟ نپولین بونا پارٹ کہہ گیا ہے کہ ‘ جو یہ سوچ کر خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں وہ ہار نہ جائے تو وہ یقینی طور سے ہار جاتا ہے۔
ملک بھر میں کوئلہ دہک رہا ہے اور اس کی تپش سے سب جھلس رہے ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر ایک غریب کے گھر تک افرا تفری اور غیر یقینی کا عالم ہے، اور تو اور افواہیں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں یوں اس کام سے تعلیم یافتہ طبقہ سے لیکر ناخواندہ افراد تک اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ماحول بگاڑنے میں ہر طرح کی مہارت استعمال کی گئی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ کوئی تیسری قوت ہے جو یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ تو میرے احباب! وہ تیسری قوت کے خلاف آپ کب ایکشن لیں گے جب ہم سب جھلس کر خاک ہو جائیں گے۔ تعصب کے کوئلوں کو ہوا دینے کی سازش پر بڑی محنت سے کشیدہ کاری کی جا رہی ہے۔
Corruption
کرپشن کے خلاف اپوزیشن نے ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ افواہ ساز فیکٹریوں پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے، مجرموں کے بجائے بے قصور لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ تفتیش کا رخ وہی پرانے گِھسے پِٹے اسٹائل سے ہی چلایا جا رہا ہے۔ نصف شب کی دستک نے نوجوان لڑکوں کے ماں باپ کے دل کی دھڑکنوں کو بڑھا دیا ہے کہ وہ جلد گھر واپس آجائیں تو سُکھ کا سانس لیا جائے۔ آج تو ملک کا یہ حال ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے اور اسی ڈگر میں سوچتے ہوئے یہ چند اشعار یونہی لب پر آ رہے ہیں تو سوچا کہ اسے بھی اس کالم کی زینت بنا دیا جائے اور میرا قلم بھی ان اشعار کو لکھنے کیلئے مجھے اُکسا رہا ہے۔تو لیجئے نظرِ قارئین کئے دیتا ہوں۔ حالاتِ شہر کے گمان سے ڈر لگتا ہے
آج انسان کہ انسان سے ڈر لگتا ہے خاک میں مل گئیں ہماری اپنی تہذیب
اب تو خود سب کو اپنی پہچان سے ڈر لگتا ہے شہر کا شہر پریشان ہے، افسردہ ہے
تذکرۂ کارِ شیطان سے ڈر لگتا ہے جانے کب کون کسے مار دے کافر کہکر
اب تو مسلمان کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے کون آئے گا ہمیں پیار سکھانے یارو
وحشتِ حضرتِ انسان سے ڈر لگتا ہے یہ بات دو اور دو چار کی طرح صاف ہے کہ ملک کی سیاست 2013کے متوقع انتخابات کے گرد گھوم رہی ہے اور اسی لئے سب ارباب اپنے اپنے پنجے نکال رہے ہیں لیکن کوئی بھی اس کا الزام اپنے سر آنے نہیں دینا چاہتے کیونکہ ان لوگوں کی ساکھ کو نقصان پہنچ گیا تو ان کا ہوگاکیا۔ عدم اعتماد کی خلیج ہر سطح پر عوام میں بڑھ گئی ہے اور میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہوگا اورجو تیسری قوت کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں اس کا براہِ راست فائدہ بھی اسی تیسری قوت کو ہی ہوجائے گا لہٰذا اگر ہم اب جاگ گئے تو بہتر ہے ورنہ سب کچھ کوئلے کی آگ میں جل کر خاکستر ہونے کا اندیشہ رہ جائے گا ، تو سوچیئے صاحبان کیونکہ بعد میں سوائے ہاتھ ملنے کے ہم کچھ اور نہ کر سکیں گے۔ اگر آخر میں یہ کہا جائے کہ دیکھئے اسلام آباد کے قریب پاکستان ایئر فورس پر حالیہ حملہ ایک انتباہ سے کم نہیں ہے ہمارے کرتا دھرتائوں کیلئے کیونکہ جب ایسی جگہیں محفوظ نہیں ہیں تو عام عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
سوچیئے، سمجھئے ، جانیئے ،اور حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیجئے تاکہ اس کا سدِّ باب ہو سکے۔ ربِّ کائنات سے دعا ہے کہ ہمارے پیارے وطن کو سلامت و سرخرو رکھے اور اس ملک میں بسنے والے تمام قوم کو ایک قوم بنا دے تاکہ ملک میں شانتی کا دور دورہ قائم ہو سکے۔ (آمین)تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی