اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور پی پی کے سینئر رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر حکومت درمیانی راستہ اختیار نہیں کرے گی بلکہ یہ راستہ عدالت اختیار کرسکتی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کئی مثالیں موجود ہیں جن میں عدالت اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرچکی ہے۔ عدالت کے 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں ماضی کے کئی اہم فیصلوں کو غلط قرار دیا جاچکا ہے یہ فیصلہ دینے والی عدالت کے کئی جج ، ختم کئے جانے والے ماضی کے ان فیصلوں میں بھی شامل رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ خط نہ لکھا تو موجودہ وزیراعظم بھی گھر جاسکتے ہیں تاہم عدالت کو راجہ پرویزاشرف کو اپنے صدر کیخلاف خط لکھنے کا حکم دینے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اعتزاز احسن نے کہاکہ عدالت سے غلطی ہوسکتی ہے اس کے جج بھی انسان ہیں وہ الہامی بات نہیں کرتے عدالت آزاد ہے۔چیف جسٹس اور ججوں نے اس کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔
عدلیہ کیلئے جدوجہد نہ ہوتی تو آج پرویزمشرف بیٹھا ہوا ہوتا۔اعتزاز احسن نے کہاکہ راجہ پرویزاشرف کیلئے بہتر ہے کہ وہ کوئی اور وکیل کرلیں کیونکہ اگر وہ پھر وزیر اعظم کے وکیل بنے تو عدالت کہے گی کہ آپ نے یہ بھی کہنا ہے اور وہ بھی کہنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا قیاص ہے کہ پیپلز پارٹی صدر کے خلاف خط نہیں لکھے گی اور حکومت درمیانی راستہ اختیار نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ 500 سالہ تاریخ میں کسی ریاست اپنے سربراہ مملکت کو کسی دوسری عدالت کے حوالے نہیں کیا. اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ فریقین اپنی پوزیشن پر ڈٹے ہوئے ہیں. سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے میں انہیں درمیانی راستہ نظر نہیں آرہا۔