متحدہ میں مملکت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش سے باز رکھنے کے لیے ، پہلے سے آواز بلندنہیں کی۔ ہم اسرائیلی فلسطینی تنازع کے معاملے میں ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جس سے اس پورے علاقے پر زبردست اثر پڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ حالات روز بروز منفی سمت میں جا رہے ہیں، اورافسوس کی بات یہ ہے کہ، انتظامیہ نے کوئی اقدام کرنے میں سست روی سے کام لیا ہے۔روس لہتینن نے اس مہینے کے شروع میں ایک مسودہ قانون پیش کیا جس کے تحت اقوام متحدہ کی ہر اس ایجنسی کے فنڈز منقطع کر دیے جائیں گے جو فلسطینیوں کی مملکت کی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کی حمایت کرے گی۔ بدھ کے روز کی سماعت میں، ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس میں بڑی حد تک اتفاقِ رائے تھا کہ فلسطینیوں کی مملکت کا درجہ حاصل کرنے کی یکطرفہ کوشش سے، مشرقِ وسطی میں امن کے عمل کونقصان پہنچے گا۔کمیٹی کے سینیئر ڈیموکریٹک رکن، ہارورڈ برمن نے توجہ دلائی کہ امریکہ ، فلسطینی اتھارٹی کو سب سے زیادہ امداددینے والا ملک رہا ہے ۔ گذشتہ 15 برسوں کے دوران اس نے 4 ارب ڈالر سے زیادہ رقم امداد کے طور پر دی ہے ۔ انھوں نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اس امداد کو خطرے میں نہ ڈالیں۔اگر فلسطینیوں نے اپنی راہ یکطرفہ طور پر اختیار کرنا جاری ر کھی ، تو امکان یہی ہے کہ کروڑوں ڈالر کی سالانہ امداد جو ہم نے انہیں حالیہ برسوں میں دی ہے، ختم کر دی جائے گی، اور اس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی ختم ہو سکتی ہے ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی امداد کی بدولت، مغربی کنارے میں بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔صدر اوباما نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کو ریاست کا درجہ مل گیا، تو امریکہ اس قرار داد کو ویٹو کردے گا۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے کہتا رہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہی مشرق ِ وسطی میں امن قائم ہو سکتا ہے، اور الگ الگ اسرائیلی اور فلسطینی ریاستیں قائم ہو سکتی ہیں جو پر امن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہیں۔الیوٹ ابرامز مشرقِ وسطی کے امورکے بارے میں صدر جارج ڈبلو بش کے قومی سلامتی کے نائب مشیر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے کمیٹی کو انتباہ کیا کہ امریکہ کو فلسطینیوں کی امداد منقطع کرنے کے معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہئیے ۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کو فلسطینی اتھارٹی کے درمیان جو ایک انتظامی ادارہ ہے، اور فلسطین کی تنظیم آزادی،یا پی ایل او کے درمیان فرق کرنا چاہئیے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی مملکت کو تسلیم کرنے کے جواب میں کوئی علامتی، غیر مالیاتی اقدام کرنا بہترین لائحہ عمل ہو سکتا ہے ۔میرے خیال میں آ پ کو واشنگٹن میں فلسطین کی تنظیم آزادی یا PLO کے دفتر کو بند کرنے کی کارروائی کرنی چاہئیے ۔ یہ سب کچھ پی ایل او کر رہی ہے۔ یہ فلسطین کی تنظیمِ آزادی کے سفیر ہی تھے جنھوں نے منگل کے روز ایک تقریر میں،جسے میں قابلِ نفرت کہوں گا،کہا کہ فلسطین کی نئی مملکت میں ایک بھی یہودی نہیں ہونا چاہئیے ۔ انھوں نے اسرائیلی نہیں کہا، انھوں نے یہودی کہا۔دی واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے تجزیہ کار ڈیوڈ ماکووسکی نے انتباہ کیا کہ امریکی امداد کو مکمل طور سے بند کرنے سے، اعتدال پسند فلسطینیوں کونقصان پہنچے گا اور حماس کے حوصلے بلند ہوں گے،جسے امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ۔امریکی کانگریس سے ملنے والی امداد سے مغربی کنارے میں جو استحکام ، خوشحالی، نظم و نسق میں بہتری ، اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان سیکورٹی کے شعبے میں جو تعاون ہوا ہے، اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اس تعاون سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کو فائدہ ہوا ہے ۔ لہذا امریکی امداد میں کوئی بھی تبدیلیاں بہت احتیاط سے کی جانی چاہئیں۔ایوانِ نمائندگان کے پینل کے کئی ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن ارکان نے سوال کیا کہ فلسطینیوں کو جو امداد دی گئی ہے اس سے ٹیکس ادا کرنے والے امریکیوں کو کیا فائدہ ہوا ہے ۔ انھوں نے فلسطینی قیادت پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔