آج 25دسمبر ہے ، ویسے تو بیرونی دنیا میں یہ دن کرسمس کیلئے مشہور ہے۔ مگر برصغیر پاک و ہند میں اس دن کی اہمیت اور بھی ہے ، اور ہمارے لئے یہ دوسرا دن ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اب آپ میرے مُدعا تک تو پہنچ ہی گئے ہونگے۔ ظاہر ہے آج کا دن ہمیں الگ ملک کی صورت میں ہم سب کو الگ شناخت دینے والے ہمارے محسن! محترم المقام ، بابائے قوم ، بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد جناح کی برتھ ڈے (ولادت) کا بھی ہے۔ یوں یہ دن ہمارے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم سب اس عظیم رہنما کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ جس کی ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے ہم سب آج آزاد وطن کی بھینی بھینی اور مسحور کر دینے والی آزاد ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ آج اُسی عظیم قائد کا 134واں جشنِ ولادت ہے جسے ہم صرف Celebrateکرتے ہیں مگر ان کے دیئے گئے اُفکار پر عمل نہیں کرتے۔
اِک تُو جس نے چمن سے پھول چھین کر ہمیں دیا ایک ہم جو یس کو گلشن بنا نہ سکے اِک تُو جو شمع جلاتا تھا ہوا کے رُخ پر ایک ہم جو شمع کو بجھنے سے بچا بھی نہ سکے
قائد اعظم محمد علی جناح جب پیدا ہوئے تھے تو کون جانتا تھا کہ یہ بچہ اپنی زندگی میں اتنا اہم فریضہ انجام دے گا جو پاکستان کی صورت دنیابھر میں جگمگائے گا۔ اور خود بھی اپنے لئے وہ مقام پیدا کر لے گا جس کے بارے میں شاید ان کے رفقاء نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اُس وقت تو اس کی خبر کسی کو نہیں تھی، مگر وقت اور حالات نے آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیاکہ آج ساری دنیا پر ان کے نام کا چرچا ہے۔ محمد علی جناح بھائی ولد جناح پونجا ( مٹھی بھائی)25دسمبر 1876ء کو برٹش انڈیا کے وقت میں بمبئی پریزیڈنسی یا وزیر مینشن کراچی میں میں پیدا ہوئے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل بھی تھے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قائد اعظم علم و دانش، فہم و فراست سے مالا مال تھے۔ اس لئے انہوں نے عوام الناس میں محبت و عزت، عظمت و مقبولیت پیدا کیا، دشمنوں اور مخالفوں کے دلوں میں اپنی ہیبت کی دھاگ بٹھا دیا تھا۔جبھی تو ان کے حاسدین کے حوصلے بھی جلد ہی پست ہونے لگے تھے۔ قائد اعظم کے اُصولوں میں خود داری کو اوّلیت حاصل تھی، 1935ء میں جب ایک ایکٹ کے ذریعے ملک کو فیڈریشن کی پیشکش کی گئی تو اس وقت ہندوستانی لیڈروں میں قائد اعظم ہی ایک ایسے لیڈر تھے جنہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
بقول ابو الخیر کشفی کے قائد اعظم رات بھر اپنے کمرے میں بیٹھے کام کرتے رہتے تھے اور جب ان سے اُس شبِ بیداری کا ذکر کیا جاتا تھا تو مسکرا کر کہتے تھے کہ ” دوسری قومیں جاگ رہی ہیں اور ان کے لیڈر سو رہے ہیں ۔ میری قوم سو رہی ہے اور میں جاگ رہا ہوں۔” سیاست میں غیر متنازع رہنا کمال کی بات ہوتی ہے اس کے لئے بے داغ اور اعلیٰ کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ لازمی امر ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی قربانی کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا، دنیا میں ایسی مثالیں کم ہی ہیں کہ کسی سیاست دان کے کردار کو مخالفین سراہتے ہوں۔ قائد اعظم محمد علی جناح عالمی سیاست میں ایسی ہی بے مثال اور منفرد شخصیت کے حامل ہیں۔ عظمت کیسے حاصل ہوتی ہے یہ ان سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔قائد اعظم ہی وہ شخصیت تھے جو مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو سمجھتے تھے اسی لئے قیامِ پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے دہلی میں منعقد ہونے والے تیسویں اجلاس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ: ”مسلمان گروہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دو سو برس سے کمزور کر رکھا ہے۔
آپ نے اس عظیم لیڈر کی افکار پڑھے ، کیا ہم ان کے افکار پر عمل کر رہے ہیں شاید نہیں! آج ہم نے اپنے اس عظیم رہنما کے اقوال کو بھلا دیا ہے جس کی وجہ سے ہم سب گونہ گوں ملکی نہج کی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ آج بھی کوشش کی جائے تو یہ سب کچھ سدھر سکتا ہے۔ علامہ اقبال کے دیکھے ہوئے خواب کو قائد اعظم محمد علی جناح نے عملی جامع پہنایا قائد اعظم کی زندگی عبارتوں سے پُر ہے، تمام نونہالانِ وطن کیلئے قائد اعظم کی زندگی مشعلِ راہ کا کام دے سکتی ہے اگر ان کے تمام افکار و عمل کو اختیار کیا جائے۔ جبھی تو علامہ محمد اقبال نے اسی نسبت سے یہ شعر کہا تھا: محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
قائد اعظم محمد علی جناح شروعات میں کانگریس کے سرگرم رکن تھے، جن کی خدمات کی بدولت بمبئی جناح اہل تعمیر ہوا تھا، انہوں نے ناخدا بن کر 1937ء میں مسلم لیگ کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور قوم میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ملک بھر کا دورہ بھی کیا اور پوری قوم نے ان کی اپیل پر لبیک کہا۔ سات سال کی قلیل مدت میں دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا نقشہ کھینچا جس کا نام ہے پاکستان، جس میں ہم سب آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکتوں میں شامل ہے۔ قائد اعظم نے ایک موقعے پر فرمایا کہ: ” اگر ہم پاکستان کی اس عظیم الشان سلطنت کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی تمام باشندوں خصوصاً عام لوگوں اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دینی چاہیئے اس ملک میں جس کی ہم آج بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ذات پات یا مذہب کی بنا پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
Mohammad Ali Jinnah
ہم اس بنیادی اصول پر اس کا آغاز کر رہے ہیں کہ سب ایک ریاست میں برابر کے شہری ہیں۔” مگر افسو س کہ ہم نے ان کے تمام فرمودات اور اقوال کو فراموش کر دیا ہے۔بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مسحور کن شخصیت کے مظاہر بہت سے ہیں ، یہاں کس کس مظاہر کا ذکر کیا جائے ہم تو ویسے بھی سب کچھ فراموش کر چکے ہیں، اور اگر صاحبِ مضمون پر لکھنے لکھانے کا عمل جاری رکھا جائے تو ایک چھوڑ کئی کتابیں معرضِ وجود میں آ جائیں گی اور یہاں پر ہمارا ارادہ کتاب کی تشکیل نہیں بلکہ صرف ان کیلئے ایک کالم ہی لکھنا ہے۔بس یہ لکھنا ہی کافی ہوگا کہ ایک دھان پان سی مہذب و شائستہ شخصیت نے صاف ستھری سیاست کرکے انگریزوں اور کانگریسیوں جیسے سخت اور طاقتور ترین مخالفین کے عزائم کو ناکا م بناتے ہوئے 14اگست 1947ء کو ہمارے لئے ایک آزاد مملکت پاکستان کی بنیاد رکھ دی لیکن افسوس کہ ہم ان کے مدّبر اور سیاسی بصیرت کے ورثے کو صحیح سمت میں آگے بڑھانے میں آج تک ناکام و نامراد ہیں۔بس فرید شمسی کے اس شعر کے ساتھ اس موضوع کا اختتام چاہتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔