پچیس دسمبر کا دن جوں ہی قریب آتا ہے تو بہت سے درندہ صفت لوگ اپنی من مانی کا علم بلند کرتے ہوئے محسنِ پاکستان ‘محسنِ قوم پر کیچڑ اچھالنے کی سعی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ امت مسلمہ کے اس عظیم سپوت کی تصاویر اپنے من پسند آئینے میں دیکھنے کے خواہاں ہیں جس کی خاطر نہ جانے انہیں کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔درحقیقت وہ گمراہی کا پلندہ لیئے ہوئے اس قوم کو اس کے مقصد اور قائد کے اسلامی نظریات سے دور لے جانا چاہتے ہیں۔کبھی قائد کو سیکولر پاکستان کا حامی دکھاتے ہیں تو کبھی ان کی نجی زندگی کا دامن تار تار کرتے نظر آتے ہیں۔دراصل وہ ایک ایسا استحصالی طبقہ ہیں جو قوم کے باشعور افراد کو ایک ایسی بحث میں الجھا دینا چاہتے ہیں جس کا فیصلہ ایک نہیں بیسوں بار ہو چکا ہے۔اور رہ گئی قائد کی شخصیت تو اس کے بارے میں انگریز مورخ ایچ وی ۔ہڈسن نے اپنی کتاب ”عظیم تقسیم” کے صفحات 38-39پر محمد علی جناح کی شخصیت ‘کردار کے متعلق کچھ اس طرح رقمطراز ہیںکہ”جناح کے سیاسی حریف بھی ان پر کبھی بدعنوانی یا خود غرضی کا الزام نہ لگاسکے۔اُن کو کسی قیمت پر بھی کوئی خرید نہیں سکتا تھا۔نہ ہی ان میں ابن الوقتی کا شہ بھر عنصر تھاکہ وہ مقبولیت کی لہر میں بہہ جائیںیا وقتی اور عارضی موقع پرستی کیلئے اپنے سیاسی مواقف تبدیل کرلیں۔وہ نہ صرف ایک ثابت قدم بااصول شخص تھے بلکہ نہایت اعلی جذبے اورعزت نفس کے حامل تھے جو حقیقت وضاحت طلب ہے وہ یہ کہ انہوں نے اپنی زندگی کے نصف حصے تک اپنے موقف یا تصورات یکے بعد دیگر بدلے مگر جس ایک تصور پر یقین محکم میسر آگیا تو پھر اس کے ساتھ زندگی کے آخری لمحات تک دیوانہ وار وابستگی کے ساتھ وابستہ رہے”۔ قائد اعظم نے پاکستان کے قیام سے قبل 101مرتبہ اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد 14بار یہ وضاحت جاری کی کہ پاکستان کے آئین اور ریاستی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔اپنی گیارہ اگست 1947کی تقریر میں کرپشن’اقرباء پروری’سفارش’اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خاتمے کے متعلق عہد کیا ۔اور کہا کہ وہ ملک میں ان سماج دشمن خرابیوں کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا 64سال میں ہم ملک کو ان معاشرتی برائیوں سے نجات دلا سکے؟جواب نفی میں ہے ۔اگر یہی برائیاں اتنے ہی زور سے قائد کے سامنے پاکستان میں آجاتیں تو لمحہ بھر کہ لیئے سوچیئے کہ وہ کس قدر غمزدہ’افسردہ’ اور رنجیدہ ہوتے اور حکمرانوں کے کرتوت دیکھ کر ان پر کیا گزرتی؟پھر ہم کس زاویے ‘کس کلیئے کے تحت کہتے ہیں کہ ہم قائد کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔کچھ افراد قانون کی حکمرانی ‘انسانی برابری’سماجی و معاشی انصاف کو سیکولرازم قرار دیتے ہیں ۔جبکہ یہ اصول ریاست مدینہ کا خاصہ رہے ہیں اور انہی کی بنیاد پر خلفائے راشدین نے حکومت کی۔قائد اعظم کے عقائد کے بارے میں جب انہیں صحافیوں نے کریدا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس عقیدے سے تعلق رکھتا ہوں جس سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے۔میں ایک مسلمان ہوں اور میرا کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔اب ذرا اسلام کے شخصیت پرستی کے نظریے پر غور کرتے ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب اسلامی لشکر کے سپاہیوں میں سپہ سالار حضرت خالد بن ولید ہی کی ذات کو فتح کا نشان سمجھا جانے لگا۔تو یہ بات بڑھتے بڑھتے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جاپہنچی ۔آپ نے تصدیق کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپہ سالاری کے عہدے سے فوراً معزول کردیا۔جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو فتح اللہ دیتاہے۔اور انہیں کسی ایک سپہ سالار کے زعم میں مبتلا ہونے سے بچالیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑا صاحب بصیرت کون ہو سکتاہے۔امت کی بہتری ‘تعمیرنو اوراعلی ترین اخلاقی تربیت کی اُمید رسالت کے زمانے کے بعد انہی سے کی جاسکتی تھی ۔اور انہوں نے اپنے زمانے میں یہ ثابت کیا کہ شخصیت پرستی درحقیقت قوم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے لہذا اسے پنپنے سے قبل ہی جڑ سے کاٹ دیا جائے۔اب ذرا اہل نظر اولیائے اکرام کی بات کریں تو دور حاضر میں بھی اللہ کی برگزیدہ ہستیاں موجود ہیں ۔ایک اللہ والے کی مجالس میں شراکت کرنا میرامعمول ہے ۔وہ اکثر محمد علی جناح کو دعا دیتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ احسان کیا اللہ اُن کی مغفرت فرمائے لیکن ساتھ ہی شخصیت پرستی کے بجائے اسلام پرستی پر زور بھی دیتے ہیں۔میرے نزدیک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک جتنی بھی عظیم شخصیات آئیں سب کی سب قابل قدر ہیں ۔لیکن ہمیں تمام عظیم افراد کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذات اور ارشادات کو وہاں تک فولو کرنا ہے جہاں تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں۔اگرسیکولرحضرات سمیت ہم سب قائد کے آخری الفاظ پر غور کرکے اپنی خواہشات اور افعال واعمال کا محاسبہ کریں تو ضرور ہمیں شرم آئے گی اور اس فضول بحث سے ضرور کنارہ کش ہو جائیں گے کے قائد کے نظریات کیا تھے۔آپ کی زندگی کے آخری الفاظ تھے ”اللہ پاکستان”۔سمیع اللہ خان