قائد اعظم محمد علی جناح اور سر سید احمد خان کی شخصیات میں کئی باتیں مشترک دیکھی جا سکتی تھیں۔مثلاََابتداء میں سر سید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے مگر بعد کے حالات نے جداگانہ قومیت کے تصور کی انتہا کو پہنچا دیا.بالکل یہی کیفیت جناح بھی تھی….اسی طرح جداگانہ قومیت کے تصور کی ابتداء سر سید احمد خان نے کی تو اس کو انتہا تک مسٹر جناح پہنچایا۔مگر اس کی وجہ ہندووں کی جارحانہ پالیسی تھی۔یہ قائد اعظم کی سر سید احمد سے عقیدت ہی تو جس کی بنا پر انہوں اپنی 30مئی1939 کواپنی وصیت میں تحریر کیا کہ میں اپنی جائداد کا کچھ حصہ علی گڑھ یونیورسٹی،پیشاور کے اسلامیہ کالج اور اپنی پہلی درسگاہ سندھ مدرسةالاسلام کے نام کرتا ہوں۔اس وصیت کو قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد بھی جوں کا توں رکھا۔1900میں محمد علی جناح بمبئی میں پریذیڈینسی مجسٹر یت کے عہدے پر چھ ماہ تک کام کرنے کے بعد وکالت کی دنیا میں سچائی اور ایمانداری کے ذریعے ایسا نام کمایا کہ آج کا وکیل اُس مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جناح مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اندر سیکولرمزاج جناح لے کر آئے تھے اور اُن کا واسطہ بھی سیکولر مزاج کے سیاست دانوں سے ہی پڑا مسٹر گوکھلے ،سریندر ناتھ بنر جی،بدر الدین طیب جی اور دادا بھائی نورو جی جیسے مخلص سیکولر مزاج سیاست دانوںسے ہی پڑا۔یہ رہنما نوجوان جناح کوان کی قابلیت کی وجہ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس ماحول میںقائد اعظم نے کانگرس کی رکنیت حاصل کرنا اپنے لئے ضروری سمجھا۔عجب اتفاق تھاکہ جس سال1906میں قائد اعظم کانگرس کی رکنیت حاصل کرتے ہیں اُسی سال مسلم لیگ جس کا بار گراں وہ اپنے کندھوں پراٹھانے والے تھے وجود میں آتی ہے۔1909میںقائد اعظم کو ان کی سیاسی نصیرت اور قابلیت کی بناء پروائسرائے کی کونسل کا رکن منتخب کر لیا گیا۔جہاں انہوں نے ایک پالیمنٹیرین کی حیثیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا۔سے ایک اسلامی بل وقف اُلالاولادکو اپنی ماہرانہ بحث کے نتیجے میں پاس کرا کے اُس وقت نام پید اکیا جب سیاست کے میدان بڑے بڑے لوگ منہ تکا کرتے تھے۔اس بل کے پاس ہونے سے جناح کی اسلامی قوانین پر گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اسلامی قوانین پر گہری نظر تھی۔جناح کی سیاست کا یہ وہ دور تھا جب ابھی گاندھی اور نہرو طفلِ مکتب تھے اور سیاست سے ان دونوں کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ قائد اعظم اس وقت تک سیاست میں بڑا نام پیداکر چکے تھے۔ 1910سے قائد اعظم نے مسلم لیگ کے اجلاسوں بھی شرکت کرنا شروع کر دی تھی لہٰذا 10، اکتوبر1913کوسر وزیر حسن اور مولانا محمد علی جوہرکے اصرار پرقائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔ اس وقت قائد اعظم بیک وقت دو سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے ۔ اس وقت وہ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے۔مگر مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد انہیں آہستہ آہستہ مسلمانوں کے مسائل اور ہندو ذہنیت کا بھی بخوبی اندازہ ہونا شروع ہوگیا ۔ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علمبرکے طور پر نمودارہوے تھے۔کانگرس میںجہاں مسلم لیگ کا نام تک سننا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔جناح کی کوششوں سے مسلم لیگ کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر1916 میں نا صرف اکٹھا ہوگئی ،بلکے مسلمانوں کے کئی ایسے مطالبات بھی معاھدہ لکھنئو کی شکل میں ماننے کو تیا ہوگئی۔ جن کو کانگرس سننا تک گوارا نہ کرتی تھی۔ یہ قائد اعظم کی شخصیت کا سحر ہی تھا کہ جس نے کانگریسیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اب گاندھی نے افریقہ میں اپنی سیاسی ناکامی کے بعد ہندوستاں وکا رُخ کیا توانہوںنے ہندو سیاست میں اپنے آپ کو فٹ پایا۔1919میں حکومت برطانیہ نے پارلیمنٹ میں ایک بل رولیٹ ایکٹ کے نا م سے پاس کرالیاتاکہ حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کی سر گرمیوں کی روک تھام کی جاسکے اور اپنے مخالفین کو بغیر مقدمہ چلائے پابند ِسلاسل کرنے میں رکاوٹ نہ رہے ۔اس ایکٹ کی وجہ سے قائد اعظم نے وائسرئے کی کونسل سے فوراََ ہی استعفیٰ دیدیا۔ یہ بات سب بخوبی جانتے تھے کہ جناح ایک قانون پسندشخصیت تھے۔جو ہر ایسے عمل کی شدت سے مخالفت کرتے تھے جو قانون کے منافی ہوتا تھا۔جیسے جیسے وقت گذر رہا تھاہندو طبقے کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔دوسری جانب گاندہی قائد اعظم کو کانگرس میں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ان تمام حالات کی بناء پر1920میں ناگپورکانگرس اجلاس میںجس وقت گاندھی کی طرف سے عدم تعاون کی تحریک منظور کی گئی تو جناح نے اُسی وقت کانگرس کی رکنیت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد اگست 1928میں نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے مطالبات رد کر دیئے تو کانگرس کی ہٹ دھرمی کا منہ توڑ جواب قائدِ اعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات کی شکل میں دے کر بر صغیر کے مسلمانوں کا واضح نکتہء نظر پیش کر کے برطانیہ اور کانگرس پر واضح کر دیا کہ ہندوستان کے مسلمان کسی کی بھی غلامی قبول کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہیں۔اس وقت محمد علی جناح اکیلے ہی مسلمانوں کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔اور مسلمانوں کو یکجہتی پر آمادہ کر رہے تھے۔تو ایسے وقت میں آج کی طرح بعض مفاد پر ست سیاست دان اپنی اپنی دوکانیں چمکانے پر لگ گئے اور مسلمانوں کے مفادات کا انہیں کوئی خیال نہ رہا تو قائد اعظم نے اسی میں بہتری جانی کہ وہ خود ہی ہندوستان کی سیا ست سے دستبردار ہوجائیں ۔لہٰذا انہوں نے لندن میں مستقل قیام اختیار کر لیا ۔اب ہندوستان کی مسلم سیاست مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعدکسی مخلص رہنما کی تلاش میں میں تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں میں سیاسی قیادت کا فقدان تھا ۔ جناح کو ہندوستان واپس لانے کے لئے کئی رہنمائوں نے کوششیں کیںجن نواب زادہ لیاقت علی خان سر وزیر حسن اہم رہنما تھے مگر قائد اعظم کی فوری ہندوستان وپسی کا سب سے اہم محرک رسول اکر م ۖکا خواب میں دیا جانے والاحکم تھا۔جسکی بازگشت تو بہت پہلے سے سنائی دیتی رہی ہے اورجس کا ذکر محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے بھی اپنے ایک مضمون میں بھی ماہ نومبر 2011 میں کیا ہے۔نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامہ” نظریہ پاکستان” میں گذشتہ دنوں 1944-45میں اپنے دہلی میں قیام کے ضمن میں یاداشتوں کے حوالے سے چوہدری فضل حق نے بتای کہ ان دنوں وہ کبھی کبھی قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔وہیں ان کی ملاقت علامہ شبیر احمد عثمانی سے ہوئی اُن کا کنہنا تھا کہ علامہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں وقت لئے بغیر قائد اعظم سے مل سکتے تھے۔علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی وفات کے بعد بتایاکہ ”قائد اعظم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ جب وہ لندن میں مقیم تھے تو ایک خواب میں انہیں رسول اکرم ۖکی زیارت ہوئی جس میںآپۖ نے فرمایا کہ ”محمد علی واپس ہندوستان جائو اور وہاں مسلمانوں کی قیادت کرو”قائد اعظم نے یہ خواب سنا کر مولانا شبیر احمد عثمانی کو تاکید فرمائی تھی کہ یہ خواب میری زندگی میں کسی پر آشکارہ مت کرنا ،میں یہ خواب دیکھنے کے فوراََبعد ہندوستان آگیا۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے نظام میں مغربی جمہوریت کی کئی بار نفی فرمائی۔قائد اعظم کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ہمیں ہر بیان میں اسلام اور قرآنی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جناح جب تک کانگرس کے رکن رہے سیکولر دکھائی دیتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد کے بھی بڑے داعی دکھائی دیتے تھے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی اور ہندووں کے معادانہ رویئے نے انہیں سیکولر جناح سے اسلام پسند جناح بنا دیاجس میں ایک جانب مولانا اشرف علی تھانوی کے شاگردوں کا بہت بڑاہاتھ رہا ہے۔جب قائد اعظم ہندوستان واپستشریف لاتے ہیں توعلماء کی تربیت اور رسول کریم کی ہدایت پر مکمل اسلامی نظریات کے حامل بن جاتے ہیں۔محمد علی جناح مسلم قوم کی شیرازہ بندی کا عزم کرتے ہیں تو پوری ملت اسلامیہ ان کے گرد دکھائی دیتی ہے۔ 1937میں قائد اعظم ہندو روئے کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ ہندو ہندوستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔کانگرس کی موجودہ پالیسی سے ہندو مسلمان نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔جس سے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔دوسری جانب گاندھی سادھووں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی جدوجہد میں مصروف دیکھے جا سکتے ہیں۔ 1937 کے انتخابات کے بعد گیاراہ میں سے آٹھ صوبوںمیں اقتدار سنبھالنے کے بعدکانگرس نے مسلمانوں کے ساتھ جو زیادتیاں کیں ان کو قائد اعظم نے بے نقاب کرایا اور جب کانگرس نے اقتدار چھوڑا تو قائد اعظم نے پوری قوم کو کانگرس اقتدار سے چھٹکارے پر پورے ہندوستان میں یوم نجات مناکر دنیا پر واضح کر دیا کہ ہندو مسلمان اکٹھا نہیں رہ سکتے۔یہی وجہ تھی کہ23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور کرا کے مسلمانوں کی منزل کا تعین بھی کر دیا گیا۔ اب گاندھی اور نہرو نے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا کہ کسی طرح جناح اپنے ہندوستان کی تقسیم کے مطالبے سے دست بردار ہوجائیں ۔انہیں اس مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کا لالچ بھی دیا گیا حد تو یہ کہ گاندھی نے قائد اعظم کو پیشکس کی کہ وہ جو چاہتے ہیں انہیں دیدیاجائے گا۔گاندھی نے ہندوستان کی وزارت اعظمیٰ تک انہیں دینے کی پیشکش کی ۔مگر جناح نے ا س پیشکش کو بھی حقارت سے ٹھکرا دیا۔میرے قائد نہ جھکنے والے تھے اور نہ بِکنے والے۔قائد اعظم نے اپنی زندگی ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے وقف کی ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ انہیں اپنا گھر بسانے کی طرف کبھی توجہ ہی نہ ہوئی۔ایک خاتون نے قائد کے عشق میں مبتلا ہو کر ان سے شادی بھی کر لی تھی مگر یہ رشتہ زیادہ عرصہ نبھ نہ سکا قائد اعظم ہمیشہ بات کے پکے اور قول کے سچے رہے۔ انہیں نہ ستائش کی تمنا تھی اور نہ ہی صلے کی پروہ۔شائد قائد اعظم کے لئے ہی یہ شعر کہا گیا تھا”مت سہل ہمیں جانوپھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید03333001671