دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں آئینی عہدے پر تعیناتی سے قبل ہر شخص کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی جاتی ہے اس جانچ پڑتا ل کے لئے ان ملکوں میں مخصوص ادارے ہوتے ہیں لیکن آئینی عہدے پر موجود کسی بھی شخص کو اس کی معیاد تک برا بھلا نہیں کہا جاتا ہے نہ ہی اس کی تضحیک کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی ذاتیات پر حملے کا تصور ہے۔ پاکستان میں بھی کسی بھی آئینی عہدے سے قبل ہر شخص کی اچھی طرح جانچ پڑتا ل کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ مہذب معاشرے کی طرح ان عہدیداروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے ہیں ہمارے ملک میں لوگ جب چاہیں ان عہدیداروں کی تضحیک کرتے ملیں گے حتیٰ کہ ان کی ذاتیات پر حملے تک کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ ان کی آئینی معیاد پوری نہ ہو جائے۔
اسی طرح کی ایک مثال صوبہ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان ہیں جن کو گورنر کے عہدے پر تعیناتی سے قبل ان تمام پراسس سے گزارا گیا جو اس آئینی عہدے کے لئے کیا جاتا ہے چونکہ ان کا تعلق مڈل کلاس اور سیاسی وابستگی متحدہ قومی موومنٹ سے تھی جس کے باعث ان کی شدید مخالفت کی جانے لگی لیکن مختلف قومی اداروںکی جانچ پڑتا ل کے کئی مراحل کے بعد ان کو کلیئر نس مل گئی اپنے آئینی عہدے کا حلف اٹھاتے ہی اس نوجوان نے ملک کے سب سے کم عمر ترین گورنر بننے کا منفرد اعزاز حاصل کر لیا جس کے بعد ان کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی لوگوں کااندازہ تھا کہ یہ نوجوان چند روز میں ہی بھاری ذمہ داری اور سیاسی مخالفت سے تنگ آکر از خود ہی سبکدوش ہو جائے گا۔
لیکن حسب روایت ان کے خلاف بھی محاذ کھول دیئے گئے کوئی ان کی تضحیک کرتا تو کوئی ان کی سیاسی وابستگی کے خلاف انگلی اٹھاتا لیکن ان کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور اس نوجوان نے دن رات محنت کرکے ثابت کردیا کہ ان کا انتخاب درست تھا لیکن یہ ابتدا تھی جوں جوں وقت گذرتا جارہا تھا مخالفین ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں تیزی لاتے رہے اور اس پروپیگنڈہ مہم کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے کم عمر گور نر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اپنی ذہانت سے اس پروپیگنڈے کا ایک دلچسپ توڑ نکالا جیسے جیسے ان کے مخالف پروپیگنڈہ مہم میں تیزی لاتے تو یہ اپنا کام اور تیز کردیتے جس کے مثبت پہلو نکلنا شروع ہوئے عوام ان کے کاموں سے خوش ہونا شروع ہوگئے جس نے مخالفین کی پروپیگنڈہ مہم کو مات دیدی اور یوں تمام مخالفین خاموش ہوگئے لیکن نوجوان گورنر کا اصل امتحان ابھی باقی تھا صوبے کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے جو پورے ملک کے اقتصادی حب کا درجہ رکھتا ہے۔
Dr Ishrat Ul Ebad
ملک دشمن طاقتوں نے اس شہر کے حالات خراب کر کے پاکستان کو ناکام اسٹیٹ بنانے کی سازش تیار کر رکھی تھی اور اس مذموم مقصد کے حصول کے لئے ان طاقتوں نے طویل عرصے سے اس شہر میں امن و امان کے مسئلے کو سنگین بنا دیا جس کے بعد یہ شہر امن کی راہ تکتا رہا لیکن اس کو کسی نے بھی امن مہیا نہ کر کے دیا نوجوان گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں ، سیاسی و مذہبی رہنمائوں ، تاجروں و صنعت کاروں ، قلم کاروں ، دانشوروں اور صحافی حضرات سمیت عام لوگوں سے بھی براہ راست ربط قائم کئے ان کی صوبے کی عوام سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرامہ و فلم رائٹر فاطمہ ثریا بجیا نے رات ساڑھے تین بجے ان کو گورنر ہائوس فون کیا تو دوسری طرف گورنر کی فریش آواز نے انھیں حیرت میں ڈال دیا۔
فاطمہ ثریا بجیا چند لمحوں کے لئے اپنا مسئلہ بھول گئیں اور بے ساختہ سوال کیا کہ آپ ابھی تک جاگ رہے ہو جس پر گورنر سندھ نے جواب دیا کہ اگر حاکم وقت سو گیا تو پھر عوام کیسے سکھ سے سو سکتی ہے اس جوا ب نے فاطمہ ثریا بجیا کو مزید حیرت میں ڈال دیا گورنر سند ھ کی زیر نگرانی صوبے اور شہر کے حالات کی بہتری کے لئے طویل اور تھکا دینی والے اجلاسوں میں دن رات اس پر غور و خوص کیا جانے لگا اور پھر ایک مربوط حکمت عملی کے تحت اس صوبے با الخصوص شہر کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنادیا گیا جس کے بعد اس شہر میں غیر ملکی سرمایہ کارامڈ آئے جنھوں نے بھاری سرمایہ کاری کرکے لوگوں کو ایک جانب روزگار فراہم کیا تو دوسری جانب پاکستان کے زرمبا دلہ میں بھی حیرت انگیز تیزی دیکھی گئی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کراچی اور صوبے میں انفرا اسٹرکچر ایک چیلنج بن کر سامنے آیا کیونکہ ماضی میں اس شہر کی کوئی پلاننگ نہ تھی اس صورتحا ل نے سب کو ایک بار مشکل میں ڈال دیا لیکن اس بار ان کی امیدوں کا محور گورنر سندھ تھے سب کی نظریں ان پر لگی ہوئی تھی۔
نوجوان اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار گورنر نے عوام کی امیدوں کے عین مطابق صوبے اور شہر میں ان گنت ترقیاتی کام کرکے مخالفین کو وطیرہ حیرت میں ڈال دیا اس بار یہ مخالفین بھی ان کی تعریفیں کئے بغیر نہ رہ سکیں ان کی کاوشوں کے باعث ہی لوگ انھیں غیر متنازعہ گورنر کہنے پر مجبور ہوئے گورنر سندھ نے گورنر ہائوس کے دروازے عوام کے لئے کھول دیئے لو گ باآسانی اپنا مسئلہ ان کو درخواست کی صورت میں دے کر مطمئن ہو جاتے گورنر ہائوس میں ہر درخواست پر فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا جانے لگا دیکھتے ہی دیکھتے گورنر سندھ نے سب سے طویل گورنر ہونے کا ایک اور اعزاز بھی حاصل کر لیا ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انھیں نشان امتیاز دینے فیصلہ کیا جو ان کی کارکردگی کا اعترف ہے۔ پاکستانی لو گ اپنے طویل کلچر کے ہاتھوں مجبور ایک بار پھر مخالفانہ سیاست میں کود پڑے اس بار انھیں اپنے لوگوں نے نہیں بلکہ غیر ملکی طاقتوں نے اس طرف دھکیلا غیر ملکی طاقتوں کو اس صوبے اور شہر میں ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اپنے مقاصد میں ناکامی کے بعد ان طاقتوں نے اپنے ایجنٹ پھیلا دیئے لیکن ہمیشہ گورنر سندھ کے کارنامے ان کی امیدوں پر اوس بن کر گر جاتے اور یہ لوگ اپنی سازش کو ناکام ہوتے دیکھ کر ایک نئی سازش کے تانے بانے بننے لگ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
Blasts Pakistan
دوسری جانب پاکستانی قوم کا حال دیکھیں جنھیں ان تمام سازشوں کا تو پتہ ہوتا ہے لیکن وہ خود اس سازش میں نا دانستہ طور پر شامل ہوجاتے ہیں اس کا انھیں علم نہیں ہوتا ہے۔ آپ پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کے بارے میں کسی بھی شخص سے پوچھیں گے تو وہ بلا جھجک کہے گا اس میں غیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں آپ ماضی کے کسی بھی حکمران کی اقتدار سے بے دخلی کے بارے میں معلوم کریں تو یہ لوگ کہیں گے اس میں بھی غیر ملکی ہاتھ تھا اگر آپ ان سے پوچھیں کہ اسے کیوں بے دخل کیا گیا تھا تو اس پر یہ کہیں گے کہ غیر ملکی طاقتیں پاکستان میں کسی ایسے شخص کو حکمران دیکھنا پسند نہیں کرتی ہیں جو اس ملک اور اس قوم سے مخلص ہو۔ اب ذرا اس قوم کا حال بھی دیکھ لیں یہ اپنے دشمن کو جاننے کا دعویٰ بھی کرتی ہے اور اس کے ایجنڈے سے بھی واقف ہے اسے پتہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اس ملک و قوم کا مسیحا بنے گا تو یہ طاقتیں اسے ہٹا دے گی لیکن یہ قوم خود کیا کرتی ہے کیا کبھی اس قوم نے اپنے مسیحا کو اہمیت دی ؟ کیا مسیحا کے جانے کے بعد ہی اس قوم کو پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص اس کا مسیحا تھا۔
آخر ہم کب تک عوام کے مسیحا ئوں کی قدر کرنا سیکھیں گے ہماری حالت میں خود ہمارا ہاتھ تو شامل نہیں کہ جب کبھی ہمیں کوئی اچھا لیڈر ملا تو ہم نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا ہمیں کب اپنے حالات سدھارنے کا خیال آئے گا قائد اعظم سے لیکر آج تک ہم نے کسی بھی مسیحا لیڈر کو آخر کیوں پذیرائی نہ دی شاید ہمیں تنقید کرنے میں مزا آتا ہے اور ہم اس تنقید میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے مستقبل کو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔