وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موجودہ نظام چلتا رہے گا، پارلیمنٹ ربڑ سٹمپ نہیں اتحادیوں سے مل کر مدت اقتدار پوری کریں گے۔ ہمارے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں اور حکومت کو ہٹانے کے لئے بہانے کرنے والے سینٹ الیکشن کا التوا چاہتے ہیں لیکن قوم جمہوری نظام کو سپورٹ کرے گی۔ امریکی فوجی امداد بند ہونے سے متعلق معاملے کا جائزہ لے کر جواب دیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مسابقتی کمیشن کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ ملکی معیشت بہتری کی جانب رواں دواں ہے ۔حکومت اور پارلیمنٹ دونوں مضبوط ہیں ان کے خلاف کی جانے والی سازشیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وزیر اعظم نے جس انداز میں حکومت اور پارلیمنٹ کے خلاف مبینہ سازشوں کا ذکر کیا وہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ زبانی دعووں کی بجائے ایک ایک بات کا مثبت اور مدلل جواب دیا جائے۔ رہا خود کو مضبوط ظاہر کرنے کا سوال تو حکومت آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے سے ہی مضبوط ہوتی ہے۔ آپ بار بار اس موقف کا اعادہ کر رہے ہیں کہ ہر ادارے کو اس کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کا موقع دیا جائے گا، اس کے معاملات میں بلا جواز مداخلت نہیں کی جائے گی اور حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی مکمل احترام کرتی ہے لیکن ان دونوں باتوں کا حقیقت پسندانہ تجزیہ قول و فعل کے تضاد کی غمازی کرتا ہے۔ ایگزیکٹو باڈی کی طرف سے اداروں کے معاملات میں مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ پارلیمنٹ نے بڑے بڑے اور اہم قومی مسائل پر قراردادیں پاس کیں لیکن ان پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آنے پائی اور ملک کو درپیش کئی سنگین بحرانوں اور قومی اہمیت کے حامل مسائل پر حکومت نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اگر کبھی کسی مسئلے پر اپوزیشن اور عوامی دبا کے تحت پارلیمنٹ کا اجلاس بلا بھی لیا گیا اور اس نے قومی و ملکی مفادات کے پیش نظر کوئی قرارداد متفقہ طور پر منظور بھی کر لی لیکن حکومت نے ہمیشہ اپنی پسند اور ناپسند کو پیش نظر رکھا ۔ سپریم کورٹ عوام کو انصاف فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اس کے درجنوں فیصلوں جن پر بلا جواز موشگافیاں کر کے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کا رویہ اختیار کیا جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی رہی کہ قومی اداروں کی حدود کا تعین بھی حکومت کے پاس ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ وزیر اعظم حکومت کے خلاف سازشوں کا ذکر بھی تواتر سے کرنے لگے ہیں لیکن آئین و قانون کی حقیقی تشریح وہی ہے جو سپریم کورٹ کہتی ہے۔وہی بتائے گی کہ کونسا اقدام آئین و قانون کے مطابق ہے اور کونسا نہیں ہے۔ پاکستانی سرحدی چوکیوں اور پاکستان کے علاقے پر نیٹو فورسز کے حملے بلاشبہ ملکی و قومی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں لیکن اتنا وقت گزر جانے کے باوجود حکومت خاموش رہی اور محض بیان بازی سے عوام کو بہلانے کی کوشش کرتی رہی ۔ اگر حکومت پارلیمنٹ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق پالیسی وضع کرتی تو نیٹو فورسز کو ان حملوں کی جرت نہ ہوتی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کی مرضی اور قومی مفادات سے ہم آہنگ اس کے فیصلوں کو نافذ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو اہمیت نہیں دی۔ میمو سکینڈل کے متعلق حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض افراد حقیقت حال کو اس طرح بڑھا چڑھا پیش کر رہے ہیں جیسے کوئی طوفان آ گیا ہو۔ لیکن کسی نے یہ کہنے کی زحمت نہیں کی کہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں ایک کمیشن قائم کر دیا ہے اسے معاملے کی تہہ تک پہنچنے دیں۔ اس کے فیصلے سے قبل ہی سپریم کورٹ کے اس اقدام اور اس کے لئے درخواستیں دائر کرنے کو حکومت کے خلاف سازش قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ حکمران کسی بھی ادارے کو آئین و قانون کے دائرئہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں۔ جہاں تک میمو سکینڈل کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لئے ملک کی ایک اہم اور بڑی سیاسی جماعت کے قائد کا تعلق ہے تو اس نے بھی آپ کے خلاف کوئی سازش نہیں کی وہ تو ماضی میں اور اب بھی متعدد معاملات میں جمہوری سیٹ اپ کا دفاع کر رہا ہے حتی کہ بعض سیاستدان اسے صدر محترم کی انشورنس پالیسی کا نام دیتے رہے ہیں اور اس کی جماعت کو کل تک فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی دیا جاتا رہا۔ حکومت کا کردار و عمل ، ملک و قوم کے مفادات اور عوام کی امنگوں سے کہاں تک مطابقت رکھتا ہے اسی سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ حکومت کتنی مضبوط ہے۔ آپ اس امر کو بھی فراموش نہ کریں کہ آزاد میڈیا، آزاد اور خودمختار عدلیہ اور پارلیمنٹ ہی مستحکم جمہوریت کی ضمانت ہوتی ہے ۔ کوئی بھی ادارہ اگر کسی دوسرے ادارے کو نیچا دکھانے پر تلا رہے تو جمہوریت کی بقا اور استحکام کی جانب کامیاب پیش رفت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ لہذا ایگزیکٹو سمیت ملک کے سب اداروں کو ایک دوسرے کے معاملات اور اختیارات میں مداخلت کی بجائے اشتراک و تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔