قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

kifait hussain

kifait hussain

میں خود پسندی، سر کشی، فساد، اور نا انصافی کے لیئے نہیں نکلا ہوں بلکہ میں اپنے جد کی اُمت کی اصلاح کے لیئے نکلا ہوں۔ تمہیں دکھائی نہیں دیتاحق پر عمل نہیں ہو رہااور باطل کوروکا نہیں جا رہا ہے،میں اس حالت میں موت کو سعادت اور ظالمین کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلت قراردیتا ہوں(حضرت امام حسین )مدینہ کے حلات حضر ت امام حسین کے حق میں ناسازگار ہوگئے اور آپ نے سوچا کہ میرے حامیوں اور حکومت کے درمیان ایک مسلح جنگ کی فضا پیدا ہوجائے اور خون خرابہ کی نوبت آجائے اور میرے نانے کا مدینہ جسے آپ نے حرم قرار دیاتھا جس حرم کے لیئے میرے چچا عثمان نے اپناخون قبول کرلیا تھا ،اپنی موت کو بے کسی اور بے بسی کے عالم گوار کرلیا تھا لیکن اپنے دفاع میں تلوار اُٹھانے کی اجازت نہ دی تھی میں نہیں چاہتا کہ وہ مقدس سرزمین میرے خون سے رنگین ہوجائے،آپ روضہ رسول پر حاضر ہوئے اور گُنبد خضرا کو مشتاقانہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر ٹھنڈی سانس لے کر عرض کی:اب آپ کے شہر کے لوگ اور یہا ں کے حکمران مجھے آپ کے قدموں میں نہیں رہنے دیتے پھر حضور اقدس سے اجازت لے کر بوجھل دل اور پر نم آنکھوں کے ساتھ اہل وعیال اور اعزا ہ واقارب کو ساتھ لے کر مدینے کے حرمت کے تحفظ کی خاطر شہر مکہ کو ہجرت فرما گئے اور وہا ںپہنچے تو عبداللہ بن زبیر بھی اپنے کئی حامیوں کو تیار کرچکے تھے ۔یزید کو جب عبد للہبن زبیر کے مکہ پہنچنے کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا لشکر بھیجا اور سپہ سالار کو حکم دیا کہ مکہ کا محاصرہ کرلیا جائے۔ظالموں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومکہ میں بھی چین سے رہنے نہ دیا۔
مکہ کی مقدس گلیوں میں خون خرابہ نہ ہو اس لیئے آپ نے مکہ سے بھی ہجرت کا فیصلہ کرلیابڑی تکلیف کے ساتھ مکہ کو الوادع کہا تین ذولحجہ کو جب حضرت امام حسین مکہ سے کوفہ کے لیئے راوانہ ہوئے تو راستے میں ایک شاعر مِلا آپ نے دریافت کیا کہ کوفہ کا کیا حال ہے اس نے جواب دیا کے ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ سے درخوست کی گئی کہ مکہ میں کچھ روز اور گزار لیں ،لیکن امام حسین کے سامنے اپنے نانا کا یہ ارشاد مبارک سامنے تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مکہ کے حرم کا تقدس قریش کے ایک شخص کے سبب پامال ہورہا ہے یہاں ایک شخص کے سبب خون بہہ رہا ہے۔فرمانے لگئے کہ مکہ میں یزیدی فوج گرفتاری کے لیئے اہتمام کرے اور ہمارے حامی ہمارے دفاع میں تلواریں اُٹھا لیں اور میرے سبب سے مکہ میں خون خرابہ ہو میں نہیں چاہتا کہ میں نانا جان کے اس ارشاد کا مصداق بنوں ۔حج کے دنوں سے قبل روانگی اختیار فرمائی اس شاعر کی بات سُننے کے باوجود آگے بڑھے،راستہ میں حر بن یزید تمیی ملا اسے ابن زیاد نے لشکر دے کر بھیجا تھا کہ حسین تمیں جہاں ملے اسے کوفے میں داخل نہ ہونے دواور کوشش کر وکہ میرے پاس لیکرآئو حرنے کہا ائے حسین ابن علی آپ کو پہ چل چکا ہوگا کہ آپ کے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل شہید ہوگئے ہیں ،کوفی لوگ حسب دستور بے وفا ثابت ہوئے وہ آپ کی اطاعت سے پھر چکے ہیں ،حالات سازگارنہیں ہیں ،بتائیے آپ کا کیا خیال ہے؟مجھے حکم ہے کہ آپ کو ابن زیاد کے پاس لے چلوں۔امام عالی مقام نے اہل قافلہ سے مشورہ کیا اور یہ قرار پایا کہ فی الحال کسی میدان میں قیام کیا جائے۔
امام حسین جس میدان تک آپہنچے اس میدان کی خبر تک نہ تھی کہ یہ کونسا میدان ہے دریائے فرات کا کنارہ تھا ، خیال کیا کہ یہاں پانی قریب ہے کچھ آسانی ہوگی،یکم محرم کو اور بعض روایتوں میں ہے کہ دو محرم کو اس میدان میں اترے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کون سا میدان ہے ،اس کا نام کیا ہے؟انھوں نے بتایا کہ حضرت اس کا نام ،کربلا ہے فرمانے لگے بس یہیں خیمے لگا دویہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے اور حضرت امام حسین کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آگئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلہ کے متعلق فرمائے تھے اور بچپن کے زمانے کی یادیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی بشارتیں آپ کی آنکھوں کے سا منے ا  گئیں ۔آپ کویہ ساری بشارتیں پہلے سے دی جاچکی تھیں اس لیئے آپ نے اس میدان کو اپنے سفر کا منتہی سمجھ کر خیمے لگائے اور خیال فرمایا کہ دریا قریب ہے پانی میسر آئے گا لیکن ان ظالموں نے آپ کو پانی سے محروم کرنے کا منصوبہ بنا لیا ۔ابن زیاد نے جب سمجھا کے عمر وبن سعد امام حسین کے قتل سے گریز چاہتا ہے تو اس نے شمر ذی الحبوشن کو لشکر دے کر روانہ کیا اور کہا کہ عمروبن سعد اگر حسین کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تو اسے معزول کرکے لشکر کی قیادت تم سنبھال لینا ۔جب شمر کربلا پہنچا تو محرم کا آغاز ہو چکا تھا عمروبن سعد نے یہ دیکھا کے کہ حکومت مجھ سے چھینی جارہی ہے اس لیئے اما م حسین کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ابن زیاد کے کہنے پر پانچ سو لشکریوں کو بھیجا کہ وہ دریاے فرات پر قبضہ کر لیں اور حسین کو پانی کا ایک گھونٹ تک نہ لینے دیں ۔یہاں مجھے محسن نقوی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔  (دیکھتا ہوں سیلاب تو یہ خیال آتا ہے  !  کہ پانی بھٹک رہا ہے تلاشِ حسین میں )   فیصلہ ہوگیا کہ دس محرم کو جنگ شروع ہوگئی ،شب عاشور کی رات آپ اپنے خیمے میں گئے عزت ماب خواتین کو جمع کیا اپنی بہن حضرت زینب، زوجہ مطہر ہ ، حضرت شہر بانو، چھوٹی شہزادیوں ،شہزادوں اور خانواہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوانوں کو ارشاد فرمایا!میں آپ سب سے بے حد راضی اور خوش ہوں آپ نے حق وصداقت ،وفا شعاری ادا کر دیا۔قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دونگا ۔تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ رات کے اندھیرے جہاں چاہو چلے جائو مجھے جام شہادت اسی میدان میں نوش کرنا ہے لیکن تمہیں اپنی خاطر جنگ میں جھونکنا اور مروانا نہیں چاہتا۔
عزیزوں کی آنکھیں پر نم ہوگئیں سب نے تھر تھراتے ہوئے لبوں سے جواب دیا !کہ امام عالی مقام!ہم اپنے خون کا آخری قطرہ آپ کے قدموں پر گرادیں گئے اگر آج آپ کو تنہا چھوڑدیا توکل اپنے خدا ،اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گئے۔اہل بیت کے مقدس کے خیموں میں رات بھر تلاوت ہوتی رہی اور امام حسین سب کو صبر کی تلقین فرماتے رہے۔ علی الصبح معرکہ کربلا بپا ہوگیا سب سے پہلے یکے بعد دیگرے ایک ایک شخص آتا رہا اور قافلہ حسینی کے جوان یزیدی لشکر کے لوگوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔یزیدی فوج نے اجتماعی حملے کا فیصلہ کرلیا لیکن ادھر سے ایک ایک جوان یزیدی پورے قافلے کا مقابلہ کرتا رہا ۔لیکن جب سارے ساتھی ،جان نثار ،اور حبیب ابن مظاہر جیسے دوست بھی شہید ہو گئے اب صر ف اہلیبت نبوت کے افراد رہ گئے اب آپ نے تلوار نکالی ،لیکن علی اکبر میدان میں آگئے،عرض کرنے لگئے اباجان !بیٹا آپ کا جوان ہے اورجوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے باپ کو ایسی تکلیف کی ضرورت نہیں،میدان میںپہنچے جہاد شروع کیا ۔آپ کی تلوار جس طرف اُٹھتی یزید ی فوج کے ٹکڑے اڑا دیتی ۔علی حیدر کرار کا پوتا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ دیر تک یزیدیوں کے واصل جہنم کرتا رہا پھر آخر کار تین دن سے بھوکے پیاسے علی اکبر کو پیاس نے آ گھیرا ،لڑتے لڑتے جسم پر بیسوں زخم لگ گئے تھے تازہ دم ہونے کے لیئے پانی کا ایک گھونٹ پینے کے لیئے خیمے آئے ،عرض کیا اباجان ! اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو تازہ دم ہوکر پھر حملہ کروں فرمایا! علی اکبر پانی تو میسر نہیں ہے لیکن اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال سکتا ہوں امام علی اکبر نے امام عالی کی سوکھی زبان چکھی اور اس سے پھر تازہ دم ہوکر میدان میں پہنچے کافی دیر لڑنے کے بعد بے اندازہ زخم کھا کر زمین پر گر پڑے ایک نیزہ آپ کے سینہ اقدس میں پیوست ہوگیا !اچانک آواز آئی !یا ابتاہ ! ائے اباجان!امام حسین بے ساختہ دوڑ پڑ ے جاکر اپنے بیٹے کو گود میں اُٹھایا ۔بیٹا ایک عجیب انداز سے باپ کو تک رہا ہے عرض کی! اباجان! آپ نیزے کا یہ پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کے لیئے تیار ہوں۔
امام حسین جب حضرت علی اکبر کو گود میں اُٹھائے ہوئے تھے ۔اس وقت آپ کی عمر چھپن سال پانچ مہینے اور پانچ دن تھی۔ ابن عساکر لکھتے ہیںکہ داڑھی اور سر کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن خون کے فوارے کو دیکھ کر اور جوان بیٹے کی روح قفس عنصری سے پروازکرتی دیکھ کر، اتناصدمہ پہنچا اور اس قدر غم سے لاحق ہو ئے کہ جب خیمے میں جوان بیٹے کہ لاش اُٹھا کر آئے تو سر اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ عزم وہمت اور صبر و استقلال کے اس پیکر جواں بیٹے کی لاش خیمے میں رکھی ہوئی شہیدوں کے ساتھ لاکر رکھ دی اور اس بار خود میدان میں جانے کی تیاری شروع کی تو ایک نو سال کا چھوٹا سا بچہ تلوار اُٹھا کر سامنے آیا ۔یہ شکل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قاسم بن حسن بن علی تھے ۔آپ نے قاسم سے فرمایا ! بیٹے تو میرے حسن بھائی کی آخری نشانی ہے تو ،تو آرام کر! جواب دیا چچاجان! میں قیامت کے دن اپنے باپ کو کیا منہ دکھائوں گا ؟وہ کہیں گئے کہ قاسم تیرے چچا تیری آنکھوں کے سامنے شہید ہوگئے اور تو دیکھتا رہا ،نہیں میرے نھنے گلے پر پہلے تلوار چل لے پھر آپ کی باری آئے گئی اور پھر قاسم بن حسن بھی شہید ہوگئے ۔ جوان ، نادان م، اور معصوم بیٹوں کے لاشے اُٹھا اُٹھا کر اما م حسین تھک گئے ،کمر جُھک گئی تھی ،آنکھوں سے نظر آنا بند ہوگیا اور میدان کربلا میں تن تنہا رہ گیا حضرت زھراکا لخت جگر ۔اجب وقت نماز آیا  فرمانے لگئے یزیدیو ! کچھ دیر رُک جائو تاکہ اللہکی بارگاہ میں سجدہ ادا کرلوں لیکن لشکر یزید یہ مہلت بھی دینے کو تیا ر نہ تھے ، امام حسین  نے ان کے عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لیے نیت باندھ لی ۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کے نماز ادا کر رہے ہیں،کچھ دیر تو رُک جائیں،بلکہ یزیدی فوج نے موقع غنیمت جانااور چاروں طرف سے چڑھائی کردی،تیروں،نیزوں،تلواروں ، بھالوں اور پتھروں کی ہر طرف سے بارش ہونے لگی اور جن کے پاس کچھ نہیں تھاوہ گرم ریت اُٹھا کرامام حسین کے زخموں پر مَل رہے تھے،تین دن کی پیاس،بھوک اورپے در پے حملوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کو نڈھال کر دیاچناچہ گھوڑے سے گر گئے،یہاں تک کے جسم اطہر میں اُٹھنے کی سکت باقی نہ رہی۔حضرت امام حسین صبر و رضااور توکل کے سارے مرحلے کامیابی سے طے کرکے شہادت کے اس مقام پہنچ گئے جسکی رفعت و عظمت کو کوئی نہیں پاسکتا۔ادھر ہائف غیبی سے صدا آئی!  حسین ب آجا!تو نے صبر کو کمال عطا کر دیااستقامت کو انتہا تک پہنچا دیاہے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اُنچا کردیا ائے حسین!آج سے تیرے اقدام کوبنائے لاالاقرار دے دیا جائے گا۔ائے حسین تو نے میرا سر فخر سے بُلند کر دیا ہے۔
حضرت فاطمہ الزہرہ بیٹے کو شاباش دیتی ہیںعلی شیر خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں۔آپ کا سر تن سے جُدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیںٹاپوں سے روندتے ہیںانہیں خیال تک نہیں آتاکہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو  عالم چوما کرتے تھے،یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کندھے پر سوار کرتے تھے اور اپنی پیٹھ پر بٹھا کرگھٹنوں کے بل چلتے تھے۔ آج کوئی بھی یزید کو اچھے الفاظ میں یاد کرنے والا نہیںہر کوئی اس پر لعنت بھیج رہاہے اور روز قیامت تک لعنت بھیجتے رہیں گئے۔اور اس کے برعکس نواسہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین اس دار فانی کو چھوڑ کر جانے کے باوجود بھی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اورروز قیامت تک زندہ رہیںگئے ۔آج بھی کروڑوں افراد اُنکی یاد میں آنسوں بہانے والے ہیں اور جو اُن کے کردار کو سراہتے ہیں کہ امام حسین حق پرستوں کے شہنشاہ اور راہ حق میں جان دینے والوں کے امام تھے اور جنھوں نے اپنے قول و فعل سے یہ بتا یا کہ دین اسلام کی تبلیغ گردن کاٹنے سے نہیں گردنیں کٹوانے سے ہوتی ہے ۔حق ،دین اور ایمان کے راستے میں شہید ہونے کے باعث  حضرت اما م حسین آج بھی زندہ ہیں۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے    !   اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تحریر :  کفایت حسین کھوکھر