قومی اسمبلی نے پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے سے متعلق بل کی منظوری دے دی۔ نجی تعلیمی ادارے غریب بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی کے لئے 10 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کے پابند ہونگے۔
قومی اسمبلی سے پاس کردہ بل کے مقاصد میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے تحت پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے عام بچوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی زمہ داری ہے۔ اس بل کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق ایکٹ 2011 کہا جائے گا اور یہ وفاقی دارالحکومت میں وسعت پزیر ہوگا۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بچہ کسی قسم کی تعلیمی فیس، چارجز یا اخراجات کی ادائیگی کا زمہ دار نہیں ہوگا بلکہ فنڈز کی زمہ داری وفاقی یا مقامی حکومت پر عائد ہو گی۔ نجی تعلیمی ادارے دس فیصد غیر مراعات یافتہ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے پابند ہونگے۔ کوئی سکول بچے کو داخلہ دینے سے انکار یا اسے خارج نہیں کر سکے گا۔ کسی بچے کو جسمانی سزا یا زہنی ازیت نہیں دی جا سکے گی۔ ہر سکول کو رجسٹریشن کا سرٹیفکیٹ حاصل کیئے بغیر کام کرنے یا اشتہار دینے کی اجازت نہ ہو گی۔
خلاف ورزی پر دو لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ خلاف ورزی جاری رکھنے پر یومیہ 25 ہزار جرمانہ ہوگا۔ بچوں کو سکول نہ بھیجنے والے والدین کو 25 ہزار روپے جرمانہ یا تین ماہ کی سزا ہو سکے گی۔ سکول جانے کی عمر کے بچے کو کام پر لگانے والے شخص کو بھی پچاس ہزار روہے جرمانہ اور چھ ماہ تک قید ہو سکے گی۔ اراکین پارلیمنٹ نے بل کو ایک تاریخی سنگ میل قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومتوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اس طرح کی موثر قانون سازی کریں۔