سچ فرمایا وزیر اعظم صاحب نے کہ ” سیاست روزمرہ کاکام ہے اور یہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے، اِس میں کوئی حتمی بات نہیں ہوتی۔”ہماری سیاست کا یہ وہ رنگ ہے جس سے ہم اور آپ بخوبی واقف ہیں،جب مفادات مشترکہ ہوں تو کل کے دشمنوں کو آج کے دوست بنتے دیر نہیں لگتی، حیرت زدہ مت ہویئے کہ کل جو لوگ دشمن اور قاتل قرار دیئے گئے تھے آج وہی لوگ دوست بننے جارہے ہیں اور پیپلز پارٹی کی کشتی میں سواری کی تیاری کررہے ہیں،سنا ہے کہ ق لیگ وفاقی کابینہ میں شامل ہونے پر راضی ہوگئی ہے اور کیوں نہ راضی ہوتی کہ پیپلز پارٹی نے بھی ق لیگ کو کابینہ میں شمولیت کیلئے 4 وفاقی وزرائ، 6 وزراء مملکت اور اقوام متحدہ میں سفیر سمیت سینئر وزیر (جیسے نائب وزیراعظم کہا جاسکتا ہے)کی شاندار پیشکش جو کی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ق لیگ کی حکومت میں شمولیت کا مقصد چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کا معاملہ ہے جن پر نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ میں گھپلے کا مقدمہ چل رہا ہے، جبکہ پیپلزپارٹی کا مفاد یہ ہے کہ حکومت میں ق لیگ کی شمولیت سے بجٹ منظور کرانے میں آسانی ہوجائے گی، بصورت دیگر بجٹ کا سادہ اکثریت سے منظور کرانا مشکل ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو پی پی حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔
اس اتحاد سے پیپلزپارٹی کو مزید یہ فائدہ ہوگا کہ اسے اپنے اُن اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بھی نجات مل جائے گی جو علیحدی گی دھمکیاں دے کر مسلسل حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجارہے ہیں۔
یوں معیشت کی بحالی، امن و امان، توانائی، مہنگائی کے چار نکاتی قومی ایجنڈے سمیت دیگرسنگین چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اہم سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت کیلئے کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ قومی حکومت کی تشکیل آئندہ چند روز میں مکمل ہوجائے گی،مسلم لیگ ق کی شراکت اقتدار میں رضامندی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اقتدار میں شرکت پر مشروط آمادگی ظاہر کردی ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کو منانے کی حکومتی کوششیں بھی جاری ہیں، ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف سے بھی حکومتی سطح پر رابطے ہو رہے ہیں تاکہ قومی مسائل کے کم سے کم نکات پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام جماعتوں کو سیاسی، جمہوری اور مشاورتی عمل کا حصہ بنایا جا سکے،دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی مفاہمتی ایجنڈے کے بنیادی خدوخال پر عمومی اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا ہے تاکہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو ختم کیا جائے اور سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش بحرانوں سے نجات دلانے کیلئے متحد ہوکر آگے بڑھ سکیں۔
سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ فارمولے کے تحت سیاسی ہم آہنگی کو قومی سطح پر وسعت دی جائے گی اور چاروں صوبوں میں سیاسی جماعتوں کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا جائیگا، مسلم لیگ ق اور حکمران پی پی پی کے درمیان اسی نظریے کے تحت اس بات پر بھی اتفاق ہو گیا ہے کہ اگلے سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات اور 2013 کے عام انتخابات کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر بات چیت کو جلد حتمی شکیل دیدی جائیگی۔
ایم کیو ایم کو پنجاب میں کام کرنے کیلئے خاطر خواہ مواقع فراہم کئے جائیں گے،جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ ق سے ایک ایک مشیر کو شامل کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نئی قومی حکومت سے پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر آئین میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق ایک نئی ترمیم منظور کرانے کی تجویز بھی زیر غورہے اور سرائیکی صوبہ اور ہزارہ صوبہ کے ساتھ بہاولپور کو صوبہ بنانے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، اسی طرح اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ڈپٹی وزیراعظم بنانے کیلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی یا ایگزیکٹو آرڈر سے ایسا ممکن ہوگا۔
قارئین محترم بجٹ سمیت آنے والے دنوں میں پیش آنے والے مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو مذکورہ نوعیت کی کسی پیشرفت کو بعید ازقیاس قرار نہیں دیا جاسکتا، وزیر اعظم گیلانی صاحب کا یہ کہنا درست کہ سیاست میں کوئی حتمی بات نہیں ہوتی ، یا یہ کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی،ایسا اکثر جمہوری ملکوں میں ہوتا رہتا ہے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پرانے اتحاد توڑ کر نئے اتحاد کیوں بنائے جارہے ہیں اور نئے دوستوں کی تلاش کا پس پردہ مقصد کیاہے، گو ہماری سیاست لاکھ لمحہ بہ لمحہ بدلنے والا کھیل سہی لیکن اسے منفی اور معمولی مفادات اور مقاصد کے حصول کیلئے بدلتے رہنا کوئی قابل ستائش عمل نہیں۔
اگر یہ سلسلہ ہونہی چلتا رہا تواس سے قومی مقاصد اور ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا،حکمران جب بھی اپنے اقتدار کے سنگھاسن کو ڈولتا ہوا محسوس کریں گے وہ نئے اتحادیوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں اور یقینا نئے اتحادی حکومتی کمزوری اور موقع کا فائدہ اٹھاکر اپنے تعاون کی منہ مانگی قیمت مانگیں جو انہیںادا کرنا پڑے گی۔
خواہ وہ ملک اور قومی مفادات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،ہم مانتے ہیں کہ ہماری موجودہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور نہ ہی کل کے دشمن آج کے دشمن ہوتے ہیں، کل تک جو لوگ ایکدوسرے کو قاتل،چور اور ڈاکو قرار دیتے تھے آج وہی لوگ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے جارہے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جب سیاسی قوتیںاپنی نااہلی اور ناکامی کو چھپانے اور اُس پر پردہ ڈالنے کیلئے ”قومی حکومت”کا فارمولاایک مجرب نسخے کے طور پر استعمال کر تی ہیں تو اس کا مقصد سوائے اپنی حکمرانی کو طول دینے ،ریاستی وسائل و اختیار کے بے جا استعمال اور ملک و قوم کے مفادات کے نام پر اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے اور کچھ نہیں ہوتا،جبکہ حب الوطنی اور قومی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے موقع پر حکومت کی سابقہ کارکردگی اور عوامی مسائل کے حل کیلئے کی گئی کوششوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر حکومت میں شمولیت کا کوئی فیصلہ کیا جائے۔
لہٰذا حکومت میں شامل ہونے والی جماعتوں کو چاہیے کہ حکومت میں شامل ہونے سے پہلے وہ حکومت کی سابقہ کارکردگی کو مد نظر رکھیں اور سوچیں کہ کیا حکومت کی موجودہ کارکردگی،معیشت کی زبوں حالی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، دہشت گردی و لاقانونیت اور بے انتہا کرپشن ا نہیں حکومت میں شامل ہونے اور اُس کے دست بازو و سہارا بننے کی اجازت دیتے ہیں ،اگر نہیں تو انہیں قومی حکومت کے نام پر حکومت بچاؤ مجرب نسخے سے دور ہی رہنا چاہیے ،کیونکہ یہ قومی سلامتی اور خوشحالی کی آڑ میں اپنی سلامتی اور خوشحالی کے ایجنڈا کے اور کچھ نہیں۔