ایک دفعہ (خلیفہ وقت)حضرت عمر نے خطبے کے دوران لوگوں سے پوچھا کہ اگر میں صحیح راہ پر نہ چلوں توتم لوگ کیا کرو گے ؟ ایک بدو اٹھا اور تلوار نکال کربولاعمر یاد رکھوتجھے میں اس تلوار سے سیدھا کردوں گا۔حضرت عمر نے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھے غلط راہ پر چلنے سے روک سکتے ہیں۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالی ٰنے اپنے خاص بندوں کی زندگی کے ہر پہلوکو آنے والے زمانوں کے عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے ترتیب دیاہے ۔اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے آج مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی قوم میں حکمرانوں کو سیدھا کرنے والے لوگ ختم ہوچکے ہیں ۔
مجھے آج اپنی صحافی برادری سے ایک اپیل کرنی ہے لیکن کچھ حالات واقعات پر بات کرنے کے بعد۔جیسا کہ گزشتہ دنوں دوران سماعت بلوچستان بدامنی کیس چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ صوبے کے معاملات آئین کے مطابق نہیں چلائے جارہے ۔انہوں نے بلوچستان میں امن وامان کی خراب تر صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے باور کرایا کہ جب سیشن جج کے قتل ہوجانے پر بھی حکومت حرکت میں نہیں آتی تو باقی کیا رہ جائیگا؟جناب چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں عرض ہے ۔(کچھ بھی کہنے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی ایمانداری پر مجھے کسی قسم کا شک و شعبہ نہ ہے ۔
میرے نزدیک وہ انتہائی ایماندار شخص ہیں اور میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ علم وشعور،ہمت ،طاقت،صحت ،عزت اورزندگی عطا فرماے امین)لیکن کسی ایک شخص کے ٹھیک ہونے سے ریاستی نظام نہیں بدلہ کرتے کیونکہ یہ کوئی دو ،تین گھنٹے کی ایکشن فلم نہیں جس میں اکیلا ہیرو دو چارہزار لوگوں سے لڑکر جیت جاتا ہے یہ حقیقت ہے یہاںنظام کو ٹھیک کرنے کے لئے پوری قوم کو ٹھیک ہونا ہو گا ۔ بات چلی تھی چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان سے ۔کیا حکومت صرف بلوچستان کے معاملات کو آئینی طریقے سے نہیں چلا رہی؟کیا باقی پورے پاکستان میں آئین وقانون کی حکمرانی ہے ؟کیا آج کی آزاد عدلیہ جس کے لئے پاکستانی قوم ایک طاقتور آمر کے سامنے ڈٹ گئی تھی وہی عدلیہ عام پاکستانی کو انصاف فراہم کررہی ہے ؟ہوسکے تو مجھے اس سوال کا جواب دے دیں کہ معزول ہونے والی عدلیہ کی بحالی سے لے کر آج تک عدالتی نظام میں کیا فرق آیا ہے ؟کیااب اگلی تاریخ لینے کے لیے عدالتی عملے کو رشوت نہیں دینی پڑتی ؟َسوال تو اور بھی بہت ہیںمیرے ذہن میں لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھے کوئی جواب نہیں دے گا۔
قارئین محترم چیف جسٹس صاحب کا یہ باور کروانا بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک سیشن جج کے قتل ہونے پربھی حکومت ایکشن نہیں لیتی تو پھر باقی کیا رہ جائیگا۔بڑی عجیب بات ہے کیا سیشن جج دوسروں سے زیادہ انسان ہے ؟کیا اسے انسان ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں جو سیشن جج یا کسی دوسرے بڑے عہدے پر تعینات نہیں ؟ اور باور کن کو کروایا جا رہا ہے جو اپنی ہی حکومت میں اپنی ہی لیڈر محترمہ شہید بے نظیر بھٹوکے قاتلوں کوگرفتار نہیں کر سکے۔قارئین محترم ایک سوال میں آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جو اپنے آپکو تحفط اور انصاف نہیں دے سکتی کیا ایسی حکومت اور ایسی عدلیہ عوام کو تحفظ اور انصاف فراہم کر سکتی ہے ؟اب بات کر تے ہیں بلوچستان کی خراب صورتحال پر۔جیسا کہ ہم سب دیکھتے ہیں کہ نیوز چینلزہر وقت بلوچستان کی خراب صورتحال کو عوام کے سامنے رکھتے رہتے ہیں ۔
Altaf and nawaz sharif
مختلف سیاست دان اور اینکر پرسن بڑا ہی خوبصورت میک اپ کر کے سکرین کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں اور کچھ اس انداز سے تبصرے و تجزئیے پیش کرتے ہیں کہ جیسے سب جانتے ہیں اور منٹوں سیکنڈوں کے اندر سارا مسئلہ حل کرسکتے ہیں ۔ان لوگوں کو گفتگوکا سلیقہ اس قدر آتا ہے کہ صرف چار لوگوں کے پروگرام میں اس قدر شور ہوتا ہے کہ پورا گھنٹہ سننے والوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا ۔ٹھیک اسی طرح جس طرح شام کے وقت کسی بڑے درخت پر سینکڑوں پرندے جمع ہو کر اپنی،اپنی بولیاں بولتے ہیں تو انسان صرف اتنا سمجھ پاتا ہے کہ پرندے چہچہا رہے ہیں لیکن پرندے آپس میں کیا گفتگوکرتے ہیں سمجھ پانا انسان کے بس کی بات نہیں ۔جب یہی حالت میں میڈیا ٹاک شوز میں دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا جیسے جنگل کے ماحول کی بنی فلم دیکھ رہا ہوں۔الزام لگانا بھی اب صرف سیاست دانوں کا کام نہیں رہا۔جب میڈیا پرسن کی ذات پر بات آتی ہے تو اسی وقت مرغیوں میںبرڈ فلو پھیلنے کی خبرچل جاتی ہے جودوسے چار گھنٹے گزرنے پر ختم ہوجاتا ہے۔خاکسارنے اس بات پر بہت غور کیا بہت سوچا کہ یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ۔
نہ تو یہ بچے ہیں اور نہ ہی پاگل ان کو یہ پتا ہوتا ہے کہ ان کو دنیا بھر میں دیکھا اور سنا جارہا ہوتا ہے پھر بھی یہ لوگ ٹی وی سکرین پر انسان ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں سا سلوک کرتے ہیں اور پروگرام ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کے گلے ملتے اور بڑے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں ۔لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا اس اضطراب کی حالت نے مجھے سونے نہ دیا اور میں رات ایک بجے کے قریب اپنے استاد جناب محترم ایم اے تبسم کے گھر یہ سوچے بغیر جا پہنچا کہ اتنی رات گئے وہ تنگ ہوں گے ۔ان کے آرام میں خلل پڑے گا ۔ میرے استاد ایم اے تبسم انتہائی شفیق انسان ہیں ۔میرے پاس ان کی شخصیت پربات کرنے کے لئے مناسب الفاظ کی ہمیشہ کمی رہی ہے ۔اب یہ ان کاحسن ظرف تھا کہ وہ میرے چہرے پہ چھائے اضطراب کے بادل دیکھ کر سمجھ گئے کہ میں پریشانی کے عالم میں اتنی رات گئے ان کے پاس پہنچا ہوں۔ انہوں نے بڑی محبت سے بیٹھنے کا کہا میں کچھ بولنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا شکر ہے کہ تیرے پاس بھی میرے لیے وقت نکل آیا ۔
کہنے لگے آج میرا بہت دل کررہاتھا کہ ایک چائے کا کپ تیرے ساتھ بیٹھ کرپیئوں اچھا کیا تم نے جو چلے آئے ۔تم بیٹھوں میں چائے کا کہہ دوں ۔یہ کہہ کر وہ اندر چلے چند منٹ بعد واپس آئے تو میں اپنا اضطراب ان کے سامنے رکھنے کے لیے تیار تھا کہ تبسم صاحب بولے میں جانتا ہوں کہ آج تم بہت پریشان ہواور مجھ سے کوئی بات کہنا چاہتے ہو۔میں نے کہا جی آپ بالکل ٹھیک سمجھے میں بہت زیادہ پریشان ہوں اورمیری پریشانی اتنی بڑی ہے کہ میں نے اس وقت آپ کو تکلیف دی ۔وہ بولے مجھے تکلیف نہیں خوشی ہوئی کہ تم نے پریشانی کی حالت میں میرا انتخاب کیا جس کامطلب ہے کہ تم سچے دل سے میری عزت کرتے ہو،کوئی ایسی بات نہیں پہلے چائے پیتے ہیں پھر تمہاری پریشانی کا کچھ حل نکالیں گے ۔کوئی آدھا گھنٹہ چائے آنے اور پینے میں صرف ہوگیا ۔اسکے بعد تبسم صاحب نے مجھ سے میری پریشانی کی وجہ پوچھی جس پر میں نے اپنے اضطراب کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کے سامنے یہ سوال رکھا کہ جب ہمارے ملک کے سیاست دان اور صحافی ملک کودرپیش مشکلات کی بنیادی وجوہات جانتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس ہر مسئلے کے ایک سے زیادہ حل موجود ہیں تو پھر مسائل حل کیوں نہیں ہوتے ؟ وہ میرے سوال پرمسکراتے ہوئے بولے امتیاز ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور والی کہاوت تو تم نے سنی ہوگی ۔
Quaid e azam
یہ لوگ جوکہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں ۔یہ سارے وہی ہیں جن کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ میری جیب میں موجود کچھ سکے کھوٹے ہیں ۔جب سے پاکستان آزاد ہوا تب سے آج تک چند خاندانوں کی حکمرانی ہے اگر یہ ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہوتے توپاکستان آج مشکلات کا شکاراور ترقی پذیر ملک ہونے کی بجائے دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن چکا ہوتا ۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب عوام سمجھ رہی ہے کہ جولوگ ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے عہدے بھی لیتے دیتے ہیں یہ سب کرپٹ ہیں۔میرے صحافیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں تبسم صاحب نے کہا کہ صحافی کبھی نہیں بکتا ۔موجودہ صحافت میں جو لوگ بکے ہوئے ہیں وہ صحافی نہیںہیں بلکہ وہ سازشی لوگ ہیں جنہوںنے ملک کے ہرصحافتی ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔یایوں کہا جاسکتا ہے کہ صف صحافت میںکچھ ضمیر فروش درندہ صفت انسان شامل ہوگئے ہیں لیکن میں ان کوصحافی نہیں مانتا ۔
یہ لوگ صحافت کا لبادھا اوڑھے ہوئے ایسے بھڑئیے ہیں جن کو سوائے پیسے کی ہوس کے کچھ دکھائی نہیں دیتا،ان چند مفادپرست عناصرکی وجہ سے اچھے اور محب وطن صحافیوں پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ایم اے تبسم نے مزید کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ہی چند مفاد پرست لوگوں کا ٹولہ اس ملک کی جڑیں کاٹنے لگا تھا اور اسی ٹولے کی باقیات آج بھی ہم پر دیمک کی طرح مسلط ہے۔جسے نوجوان طبقہ ہی ختم کرسکتا ہے۔اور مجھے قوی یقین ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب وطن عزیز
ان کرپٹ اور مفاد پرست قسم کے لوگوں سے پاک ہوگا۔ قارئین محتر م راقم کے خیال میں صحافتی شعبہ میں ضمیر فروشوں کوملک وقوم کے دشمنوں نے سازش کے تحت شامل کیا ہے ۔تاکہ میڈیا یرغمال بن جائے اوروہ من پسند نتائج حاصل کر سکیں۔اگرکسی کا خیال ہے کہ یہ سازشی لوگ صرف میڈیا میں موجود ہیں تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔کیونکہ یہ ملک کے ہر ادارے میں موجود ہیں ْیہاں تک کہ یہ سازشی لوگ عبادت گاہوں ،مسجدوں ،امام بارگاہوں،درگاہوں،گرجاگھروں ، گرورداروں اور مندروں میں بھی موجود ہیں ۔لیکن آج کل تنقید صرف میڈیا پر کی جارہی ہے ۔لیکن جن مشکلات میں پاکستانی میڈیا کام کر رہا اس بات کا اندازہ صرف ایک صحافی ہی لگا سکتا ہے ۔
اب اس بات کا فیصلہ آپ خود کریں کہ ہمارا میڈیا یرغمال ہے یا نہیں؟خاکسار کی صحافی برادری سے اپیل ہے کہ اپنی صفوں میں گھسے بیڑیوں کو پہچان کر فوراباہر کریں ورنہ یہ صرف صحافیوں کو ہی نہیں پوری قوم کو کھا جائیں گے اوران سازشی عناصر کی موجودگی میں آئین و قانون کی حکمرانی بھی ممکن نہیں۔ میںاس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔اے پروردگار اہل قلم کو اتنا بااختیار کردے کہ انہیں دنیا کی کسی دولت سے خریدا نہ جا سکے ۔پروردگار اہل قلم کو حق و سچ لکھتے رہنے کی توفیق و طاقت عطا فرما۔ (امین) ۔