کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے جسے پڑھنے سے نہ صرف انسان کی تنہائی دور ہو جاتی ہے بلکہ کتاب انسان میں شعور بھی پیدا کرتی ہے اور انسان کو مختلف معلومات مہیا کرتی ہے جس سے پہلے انسان ناواقف ہوتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران کتاب پڑھنے اور خاص کر کسی لائبریری میں جا کر کتاب پڑھنے میں کمی آرہی ہے جسکی کی وجوہات میں مہنگائی کے باعث انسان کی قوت خرید ہونا اور لائبریریوں کی خستہ حالی شامل ہے۔ کتاب کی افادیت کو اجاگر کرنے کے لیے 24 اپریل کو کتاب کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے جس پر پاکستان میں ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔
گزشتہ اقتدار کے پانچ سالوںمیں تعلیم کے شعبے کا حال اپنی جگہ مگر لائبریریاں بھی حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث صرف ایک عمارت بن کر رہ گئی ہیں۔ ملک میں موجود لائبریریوں میں مختلف موضوعات کی کتابیں تو موجود ہیں مگر لائبریریوں میں بہتر نظام نہ ہونے کے باعث شہری یہاں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں۔ کچھ شہروں میں موجود لائبریریوں کی عمارتیں بھی کافی خستہ ہو گئی ہیں جن کی مرمت پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
اس کے علاوہ لائبریریوں میں کتابیں ترتیب میں نہ پڑی ہونے سے آنے والے لوگوں کو مطلوبہ کتاب ڈھونڈنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ سے بھی لوگ لائبریری سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں کیونکہ اگر مطلوبہ کتاب اگر ملے ہی نہ تو شہری دوبارہ اس لائبریری نہیں آتے۔ لوگوں کا لائبریری نہ جانے کی ایک اور وجہ اس کا شہر کے درمیاں واقع نہ ہونا ہے جس سے لوگوں کو آنے میں مشکلات ہوتی ہے اس طرح دور دراز کے لوگ وہاں آنے سے باز رہتے ہیں۔
پاکستان میں جب کوئی رواج ختم یا کم ہو رہا ہوتا ہے تو اس کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے اور نہ ہی اس کا کوئی متبادل فراہم کیا جاتا ہے جیسے لائبریری کے سسٹم میں کوئی خاص بہتری نہیں لائی جاتی۔ اگر ہم پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں کی بات کریں تو وہاں ہر سسٹم کا متبادل فراہم کر دیا جاتا ہے، مثال کے طور پر امریکہ میں ایک ایسی لائبریری بنائی گئی ہے جس کے لیے لوگوں کو وہاں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود چل کر لوگوں کے گھر آجاتی ہے۔
Books
امریکی ریاست میری لینڈ کے ایک قصبے میں بچوں کو وہ تمام کتابیں میسر نہیں تھی جن کی انہیں ضرورت تھی مگر یہ چلتی پھرتی موبائل لائبریری انہیں کتابیں فراہم کرتی ہے اس لائبریری میں وہ سینکڑوں کتابیں موجود ہیں جن کی بچوں کو ضرورت پڑسکتی ہے اس موبائل لائبریری کا نام واشنگٹن کاوئٹی فری لائبریری ہے لائبریری کی منتظم کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو سکول میں پڑھائی جانے والی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ واشنگٹن کی پہلی لائبریری ہے جو ایک طویل عرصے سے پڑھنے والوں کو ان کی دہلیز پر خدمات فراہم کر رہی ہے۔ یہ لائبریری بچوں کے علاوہ بڑی عمر کے ان افراد تک بھی کتابیں پہنچاتی ہے جو لائبریری جانے سے قاصر ہیں۔ ایک بس میں قائم یہ لائبریری جن علاقوں میں سروس مہیا کر رہی ہے وہاں اس کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لائبریری جانے کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ الیکٹرانک کتاب E-Book)) بھی ہے جس کو ہم انٹرنیٹ سے باآسانی حاصل کر کے گھر بیٹھے پڑھ سکتے ہیں۔
جس کے لیے لائبریری نہیں جانا پڑتا۔ آج کل تقریباَ تمام کتابیں ای بک کی شکل میں انٹرنیٹ پر موجود ہیں جنہیں آسانی سے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ انٹر نیٹ کی بدولت برقی آموزش یعنی ای لرننگ کا دروازہ بھی اسی کے ذریعے کھلا ہے جس نے طالبعلم کو روائتی استاد سے محروم کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے ہی معاشرے میں کتاب بینی کا رجحان کم ہوا ہے۔نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق کتب بینی کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔
لوگ اب دکانوں اور لائبریریوں میں جا کر کتابیں، رسائل اور اخبارات پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص لائبریری چلا بھی جائے تو وہ محض اخبارات پڑھ کر واپس آجاتا ہے اور اسے کتابیں پڑھنے سے کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ ہمیں کتاب کی افادیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور لائبریریوں میں جا کر کتاب بینی کے رجحان میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی چاہے جتنی مرضی زیادہ ترقی کر جائے لائبریری جاکر کتاب پڑھنے کا ایک اپنا ہی انداز ہے جسے کوئی اور ٹیکنالوجی انسان کو میسر نہیں کر سکتی۔