اسلام آباد(جیوڈیسک)چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایجنسیاں غیر قانونی طور پر کسی کو حراست میں رکھنے پر جواب دہ ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حراست میں موجود قیدیوں کے خلاف ثبوت مل گئے۔ ایک ماہ کا وقت دیا جائی تاکہ ان کے خلاف کیس کو اگے بڑھایا جاسکے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے ان قیدیوں کوپندرہ ماہ کس قانون کے تحت قید رکھا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ قیدی فاٹا میں فوجی قافلے پر حملے میں ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام قیدیوں پر ایک ہی چیز کی برآمدگی ظاہر کی گئی جو ناقابل اعتبار بات ہے۔ آج کے دن تک آپ کے پاس ان افراد کو حراست میں رکھنے کی کوئی اتھارٹی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایجنسیاں غیر قانونی طور پر کسی کو حراست میں رکھنے پر جواب دہ ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت حکم دے تو ملزموں کا ٹرائل شروع ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کیا حکم دیں آپ قانون کے مطابق چلیں۔جس قانون کے تحت قیدیوں کو وہاں رکھا گیا ہے اس کی آئینی حثیت چیلنج ہو چکی ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت رہائی کا حکم دے تو وہ عمل کریں گے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ عدالت پر چھوڑنے کے بجائے خود کوئی راستہ نکالیں۔
اگر ہم نے رہائی کا حکم دیا اس کے دوررس اثرات ہوں گے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں مشاور ت کے لئے وقت دیا جائے کوئی حل نکال لیں گے۔کیس کی سماعت اٹھائیس جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔