حکومت کے تمام تر دعوں اور اعلانات کے باوجود ملک کے چاروں صوبوں خصوصا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ روزہ داروں کو افطار سحر اور نماز تروایح کے دوران بھی اندھیرے قیامت خیر گرمی اور شدید حبس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ ہفتوں کی طرح اتوار کوبھی جہلم نوشہرہ لاہور ملتان شیخوپورہ ڈیرہ غازی خان اسلام آباد راولپنڈی پشاور صوابی اور کئی دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام اپنے غم وغصے کے اظہار کے لئے سڑکوں پر نکل آئے، رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک بند کردی۔ واپڈا کے دفاتر گرڈ اسٹیشنوں اور سرکاری املاک پر حملے کئے، گاڑیوں اور قیمتی سامان کو آگ لگادی۔
توڑ پھوڑ کی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے ۔ مشتعل مظاہرین کے گھیرا جلا کے دوران سرکاری ونجی املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا صدر آصف علی زرداری نے اس دوران توانائی کے بحران پر غور کے لئے ایوان صدر میں اجلاس طلب کرلیا جو پیر کو ان کی صدارت میں ہوا? خیرپور میں اتوار کو پیپلز پارٹی کے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے عوام کو امید دلائی ہے کہ وہ پریشان نہ ہوں، لوڈشیڈنگ بہت جلد ختم ہوجائے گی۔
موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو پہلے دن سے ہی اسے بجلی کے بحران کا مسئلہ درپیش تھا۔ موجودہ وزیراعظم نے جو اس وقت پانی اور بجلی کے وزیر تھے بڑے وثوق سے اعلان کیا تھا کہ ملک میں31 دسمبر 2009 کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی آج اس حکومت کے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اور لوڈشیڈنگ تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ نہ صرف اپنی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت نے پچھلے ساڑھے چار سال میں زبانی جمع خرچ کے سوااس شعبے میں عملی طور پر کوئی کام کیا ہی نہیں لیپاپوتی کے لئے اس نے بعض کمپنیوں کے ساتھ کرائے کی مہنگی بجلی حاصل کرنے کے جو معاہدے کئے ان میں بعض ایسے معاملات سامنے آئے جن میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ واجبات کی ادائیگی کے معاملات بھی تھے جن کے باعث صارفین کے بجلی کے بل تو بڑھ گئے مگر اصل مسئلہ حل نہ ہوسکا۔
IRAN
متبادل ذرائع ہوا پانی، سورج وغیرہ سے بجلی پیدا کرنے میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ایران اور بھارت نے پیشکش کی کہ وہ بجلی دینے کے لئے تیار ہیں، ان سے بارہ تیرہ سو میگاواٹ بجلی مل سکتی تھی مگر جس طرح ایران سے گیس کے حصول کے لئے پائپ لائن بچھانے کے معاملے پر حکومت کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھاسکی اسی طرح بجلی کے لئے بھی ان دونوں ملکوں سے بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچی اورملک میں بجلی کا بحران بڑھتا چلا گیاسابق وزیر اعظم گیلانی نے کئی بار لوڈ شیڈنگ جلد ختم کرنے کے اعلانات کئے مگر یہ دعوے نقش برآب ثابت ہوئے کیونکہ مسئلے نوٹس لینے سے نہیں کام کرنے سے حل ہوتے ہیں اور کام کسی نے نہیں کیا? گیلانی صاحب نے کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ چاروں صوبوں میں یکساں ہوگی،اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔
حکومت نے افطاری نماز تراویح اور سحری کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، اس پر ایک روز بھی عمل نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلان پر عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی تو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ داروں کو جو پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں یہ جھوٹی آس کیوں دلائی؟ بجلی نہ ہونے سے اکثر گھروں میں پینے اور مساجد میں وضو کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں ہوتا بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے ساڑھے چار سال میں تو کچھ نہیں کیا جاسکا، اب تسلی دی جارہی ہے کہ لوڈشیڈنگ بس ختم ہونے ہی والی ہے? کیسے ختم ہوگی اس کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ایک رپورٹ یہ ہے کہ صدر کسی چینی کمپنی سے بجلی کے لئے معاہدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں پھر سوال یہ ہے کہ چینی کمپنی اگر بجلی کی کمی دور کرسکتی ہے تو یہ کام بہت پہلے کیوں نہ کیا گیا? دوسری بات یہ ہے کہ درپیش حالات میں اس کا امکان بھی کم ہی نظرآتا ہے? حکومت پنجاب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ18ویں ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنا اس کا کام ہے جو اس نے نہیں کیا? اس صورت میں کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت ہی صوبوں سے کہہ دیا جاتا کہ اب بجلی تمہیں ہی پیدا کرنی ہے? اس طرح کافی وقت بچایا جا سکتا تھا۔
electricity
اگر بجلی کی پیداوار صوبوں کا کام ہے تو وفاقی حکومت اب تک اس حوالے سے جن منصوبوں کی باتیں کررہی ہے وہ کس اختیار کے تحت آتے ہیں? پہلے یہ تو طے کرلیا جائے کہ بجلی وفاق کی ذمہ داری ہے یا صوبوں کی? اسی حوالے سے تھرکول کا منصوبہ التوا کا شکار ہے? اس منصوبے کے تحت 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جو پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد برآمد بھی کرسکتا ہے اور یہ انتہائی سستی بجلی ہوگی جو چار روپے فی یونٹ کے حساب سے صارفین کو مہیا کی جاسکے گی لیکن بعض تحفظات اور رکاوٹوں کے باعث اس معاملے میں تاخیر ہو رہی ہے? چین سے تقریبا ڈھائی ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا معاہدہ ہوا تھا اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا? یہ صورتحال بہت تشویشناک ہے? لگتا ہے کہ بجلی کے معاملے میں بنگلہ دیش سے تو ہم پیچھے رہ ہی گئے ہیں شاید بھوٹان اور صومالیہ سے بھی پیچھے رہ جائیں گے? حکومت اگر عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے تو صاف اقرار کرے، جھوٹی تسلیاں نہ دے ۔
اس کی غلط بیانیوں کے نتیجے میں عوام نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں انہیں حکومت کی کسی بات پر یقین نہیں آتا? وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ دراصل بیوروکریسی کام نہیں ہونے دیتی? اگر ایسا ہے تو کام میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو فارغ کیوں نہیں کیا جاتا؟ جمہوری نظام کے مفاد میں یہی ہے کہ حکومت اور عوام کو مزید مایوس نہ کرے? مسئلے دعوں سے نہیں کام کرنے سے ہی حل ہوں گے، بہتر یہی ہے کہ حکومت کی باقی ماندہ آئینی میعاد میں عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے جو کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہو وہ تیزی سے کیا جائے اور عوام کو برسرزمین اپنے مسائل کے حل میں پیش رفت ہوتی نظر آئے۔