ماحولیاتی وفضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے ،تاہم پاکستان،بھارت، سری لنکا ،بنگلہ دیش ودیگر ترقی پذیر ممالک میں اس مسئلے نے ایسی پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے کہ جس کی بناء پر انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔پاکستان بھر میں خصوصاً شہروں میں درختوں کی کٹائی کی روش نے ماحول میں تپش پیدا کر دی ہے ۔انڈسٹریلائزیشن اور رہائشی ضروریات کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے سرکاری سے زیادہ پرائیوٹ سیکٹر میں ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا کاروبار عروج پر ہے۔یہ ادارے ہرے بھرے کھیتو ں کو اجاڑ کر اپنے منصوبوں کو وسعت دے رہے ہیں ۔ حکومتی سطح پر کہیں بھی ان منصوبوں کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ۔جہاں جس کا دل چاہتا ہے وہ ذمہ دار اداروں کی ملی بھگت سے ”ہاؤسنگ پراجیکٹس ” کا آغاز کر دیتا ہے ۔اس کام کیلئے سب سے پہلے درختوں کا صفایا کیا جاتا ہے ۔اپنے ان منصوبوں کی وجہ سے مالکان مستقبل میں پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل کا ادراک بھی نہیں کرتے ۔
گذشتہ30سالوں میں اس سیکٹر میں بے شمار سرمایہ کاری کی گئی ہے ۔اس سرمایہ کاری کی بدولت متوسط طبقے کے بہت سے خاندان کروڑپتی بن چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ نودولتیے پراپرٹی کے ذریعے ملنے والی اسی دولت کے بل بوتے پر محروم طبقات کی زندگیوں کو اجیرن بنا نے میں لگے ہیں ۔شہروں میں کثیر المنزلہ پلازوں کی بھرمار نے بھی لوگوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے ۔حتیٰ کہ ”پلازوں کے نیچے بیسمنٹس (تہہ خانے) بنانے کا رواج بھی وسعت پا چکا ہے ۔تہہ خانوں میں قدرتی ہوا کاگذر نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کو دمہ سمیت سانس کی مختلف بیماریوںں کے ساتھ ساتھ بینائی میں کمی اوردماغی امراض بھی لاحق ہونے کی شکایات عام ہیں۔
کثیر المنزلہ عمارات میں گنجائش سے زیادہ سینکڑوں افراد رہائش پذیرہیں یا کام کررہے ہیں ،جن کی وجہ سے آلودگی بڑھ رہی ہے ۔کیونکہ ان عمارات میں بھی قدرتی آب و ہوا کا کہیں گذر نہیں،اور انہیںگرم اور ٹھنڈا رکھنے کیلئے بھاری بھرکم جنریٹر زاور ہیوی قسم کے ہیٹرز استعمال کرنے سے بھی ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے ، شہروں میں گاڑیوں کی تعداد بھی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔ان گاڑیوں میں جلنے والا پیٹرول اور ڈیزل بھی تپش بڑھا رہا ہے ۔دنیا کے بڑے چھوٹے بہت سے ممالک نے خود کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ”ایٹم بم ” اور ”میزائل ”بنالئے ہیں ۔ ایٹمی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے ریسرچ کے کام کیلئے بے شمار لیبارٹری قائم کی جا چکی ہیں ،ایٹمی ریسرچ کی وجہ سے بھی فضامیں تابکاری اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔جو بہت ہی تکلیف دہ صورتحال پیدا کر رہے ہیں ۔موسمی اثرات سے بچنے کیلئے استعمال ہونے والے آلات انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کررہے ہیں لیکن کسی کو اس بارے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ۔آسان طلبی ، سستی کاہلی اور محنت مشقت سے جی چرانا اب ہماری عادت بن چکی ہے ۔جدید ایجادات کو ہم نے اپنے لئے خود ہی لازم و ملزوم بنا لیا ہے ۔
شہری علاقوں میں درختوں کا صفایا کسی عذاب سے کم نہیں ہے ۔ادھر گذشتہ روز اس سنگین مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے شجر کاری مہم کاباقاعدہ آغاز کردیا ہے اور کہا کہ ہم نے اگر درخت لگانے نہ شروع کئے تومستقبل قریب میں پاکستان ریگستان بن سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شجر کاری مہم کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے، شجر کاری مہم تمام شہروں میں شروع کررہے ہیں، پورے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شروع کی جانے والی ملک بھر میں شجرکاری مہم کے حوالے سے حکومت پاکستان کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی ہے ۔وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا، 5 سال میں پورے پاکستان کو سرسبز و شاداب کرنا ہے، جو بھی خالی علاقے اور زمین ملے گی وہاں پر پودے لگائیں گے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ درخت نہ لگائے گئے تو آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا، شجر کاری مہم کا مقصد آئندہ نسلوں کو بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔ان کا یہ بھی کہناہے کہ ابھی تک کسی کو جنگلات برباد کرنے کا احساس نہیں تھا، درخت لگانے سے بارشیں ہوں گی یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ سب لوگ” گرین پاکستان” مہم میں حکومت کاساتھ دیں۔
بیشک ! ماحولیاتی آلودگی اس وقت ایک سنگین صورت اختیار کی چکی ہے ،وزیر اعظم عمران خان کا یہ اقدام وقت کی اہم ضرورت تھا جس کو دیگر امور پر ترجیح دی گئی ہے ۔نجی شعبہ بھی اپنے محدود وسائل کے ساتھ ملک کو سرسبز و شاداب بنانے کے قومی فریضے میں شریک ہے جو خوش آئند بات ہے ۔ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانا ہے ورنہ انہیں جسمانی تکالیف اور دیگر پریشانیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ اس حوالے سے حدیث مبارکہ بھی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ”درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے” ۔ہمیں اس پر عمل کرنا چاہئےماضی میں شیر شاہ سوری نے جب ممبئی سے کابل تک ”گرینڈ ٹرنک روڈ ”(قومی شاہراہ )بنوائی تھی تو اس نے ان تما م امور کا خیال رکھا تھا ۔جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف بڑے بڑے درخت لگوائے گئے ،جگہ جگہ قیام گاہیں ،عبادت گاہیں، بیت الخلاء ،پینے کے پانی کیلئے کنویں تک بنوائے گئے تھے حتیٰ کے جانوروں کی ضروریات کو بھی مدنظررکھا گیا تھا اور یہ سب صدیاں گذرنے کے باوجود آج بھی قائم ہیں جو ہم جی روڈ پر سفر کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔
ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہمارا ماضی قدرت کا ایک ایسا انعام تھا کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن بعد ازاں حکمرانوں نے ان روایات کو ترک کردیا ،جنگلات ناپید ہونے سے کرہ ء ارض کی بقاء کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں ، ہم نے آئندہ نسلوں کو صحت مند ماحول دینے کی بجائے انہیں ایک گھٹن زدہ فضافراہم کی ،جس کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں کو ہی بھگتنا پڑے گا ۔ماضی میںحکومتی سطح پر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے قائم وزارت کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے کہ جس نے محض” ڈنگ ٹپاؤ”پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنا وقت گذار دیا ۔اب چونکہ”نیا پاکستان ”بننے جا رہا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے ملک کو سرسبز و شاداب بنانے کے کام کو اولیت دی جائے ،کیونکہ اس مسئلے نے ساری قوم کو ذہنی طور پر بیمار کر رکھا ہے ۔گلوبل وارمنگ سے بچنے کیلئے جنگلات کا تحفظ بہرحال ممکن بنانا ہوگا، درختوں کی کمی بیماریاں پھیلانے کا سبب ہے ۔پی ٹی آئی حکومت نے صوبہ خیبرپختونخوا میں اپنے دور میں شجرکاری مہم کو وسعت دی تھی جو ان کی حکومت کا ایک احسن اقدام تھا ،اب جبکہ وفاق میںبھی پی ٹی آئی کی حکومت بن چکی ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے شجرکاری مہم شروع کرنے کا اعلان کردیاہے ،حکومتی اور عوامی سطح پر جنگلات کے تحفظ اور درخت لگانے کی تحریک ہماری آئندہ نسلوں کی بقائکیلئے ضروری ہو چکی ہے ،ظاہر ہے کہ سارے کام حکومت نے تو نہیں کرنے ہوتے اس کیلئے بحیثیت قوم ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جس پر دھیان دیناہوگا۔
درخت حیاتیاتی بقا کیلئے ناگزیر ہیں اس لئے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی شجر کاری مہم میں ہر ذی شعور انسان کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے ۔ملک میں بڑھتے ہوئے موسمی تغیر اور حدت سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں اور یہ شعور ہمیں اپنے بچوں اور سکول کی سطح پر پیدا کرنا چاہئے ۔ ہمیںاس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ہماری شجر کاری مہم محض فوٹو سیشن تک محدود نہ ہو بلکہ شجر کاری مہم کامیاب کرنے کے ساتھ ساتھ پودوں کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ ہم اپنی بقا کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کی خاطر زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر ان کو پاک اور صاف ستھرا ماحول فراہم کر سکیں۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com