یوں تو دنیا کے تمام معاشرے میں ماں کی عظمت کے قائل ہیں لیکن اسلام نے ماں کے درجہ کو بہت بلند کر دیا ہے اسلامی تعلیمات کے مطا بق ماں کے حقوق والد سے تین گنا زیادہ ہیں ۔پاکستانی معا شر ے میں ماں کے ادب واحترام کو خا ند انی نظام میں مرکزی مقا م حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے معلومات کی کمی ،روایت پر ستی اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے اکثر ”بننے کا عمل ”نہایت تکلیف دہ ہو تا ہے ۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی دیہاتو ں میں رہتی ہے اور شر ح خواندگی بھی شر م ناک حد تک کم ہے اور دیہا تی علا قو ں میں پڑ ھی لکھی خواتین کا تنا سب تو ما یو س کن ہے ۔یہی و جہ ہے کہ ماں بننے کے 9 ما ہ بعد کے عر صے میں اور بچے کی پیدا ئش کے بعد بھی مائو ں کو کئی مسائل کا سا منا کر نا پڑ تا ہے ۔مختلف دستیا ب اعداد وشما ر کے مطابق پا کستان میں اوسطا45 لا کھ خوا تین سا لا نہ ما ں بننے کے عمل سے گز رتی ہیں اور دورا ن زچگی یا زچگی کے بعد 30,000 خوا تین میڈ یکل بنیا دو ں پر لقمہ اجل بن جا تی ہیں ۔ یہ تعداد دنیا بھر کے تما م مما لک سے (ما سوا ئے افغا نستا ن)زیا دہ ہے ۔حا ملہ خوا تین کو جن مسا ئل کا سامنا کر نا پڑ تا ہے ان میں روایتی گھر یلو یا خا ندا نی بند شیں جن کی وجہ سے حا ملہ خا تو ن کو ڈا کٹرکے پا س لیکر جا نے یا اس کے مختلف ٹیسٹ / چیک اپ کروانے معیو ب سمجھتے ہیں ایک بڑ ی ہے اس کے پس منظر میں بعض اوقا ت خا ندا ن کے ما لی حا لت بھی آڑے آجا تے ہیں جس میںسفر ی اور ٹیسٹو ں کے اخرا جا ت کئی خا ندا نو ں کے لئے قا بل بر دا شت نہیں ہو تے ۔حا ملہ خوا تین کا دو سرا بڑامسئلہ نز دیکی مقا ما ت پر ایسے سنٹرز کی عد م مو جو دگی ہے جہا ں پر ان کو میڈ یکل کی سہو لتیں میسر ہو ں یو ں دور دراز مقا ما ت کا سفر کر نا ان کے لئے ممکن نہیں ہو تا اور انتہا ئی ضرورت کے علا وہ محض چیک اپ کے لئے جا نا غیر ضرو ری تصور کیا جا تا ہے ۔حا ملہ خوا تین کا تیسرا بڑا مسئلہ غذائیت کا ہے ۔حا ملہ خا تو ن کو ایک کی بجا ئے دو جا نو ں کا بو جھ اٹھا نا ہو تا ہے اور پیٹ میںپا لنے وا لے بچے کے لئے بھی متو ازن اور صحت مند خورا ک کی فرا ہمی کو یقینی بنا نا ہو تا ہے لیکن ہما رے گھرا نو ں میں اس پر کو ئی خا ص تو جہ نہیں دی جا تی جس کی و جہ سے خوا تین خورا ک کی شد ید کمی کا شکا ر ہو جا تی ہیں ۔جسم میں خو ن کی کمی انیمیا کی شکل میں ظا ہر ہو تی ہے جس کاآنے وا لے بچے کی صحت پر بہت نقصا ن دہ اثر پڑ تا ہے ۔ما ں کے سا تھ سا تھ نوزائید ہ بچے کو بھی کئی مسا ئل کا سا منا کر نا پڑ تا ہے جس میں خورا ک کی کمی ، پیدا ئش کے عمل (زچگی) کے دورا ن حفا ظتی تدا بیر کے اختیا ر نہ کر نے کی و جہ سے انفیکشن ہو جا نا ، مو سمی اثرا ت کے تحت ڈا ئر یا یا نمو نیہ یا اسی طر ح کی دو سری سا نس کی تکا لیف کا شکا ر ہو جا نا شا مل ہیں اور اگر بر وقت طبی مدد مہیا نہ کی جا ئے تو بچے کی مو ت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔ہمارے دیہا تو ں میں اکثر زچگی کا عمل گا ئو ں کی غیر تر بیت یا فتہ دا ئیو ں کے ہا تھو ں انجا م پا یا جا تا ہے اور دورا ن زچگی ما ئو ں کی مو ت کی ایک بڑ ی و جہ یہ غیر تر بیت یا فتہ دا ئیا ں بھی ہیں اور پھر گھر کا غیر صحت مند ما حو ل بھی ما ں یا بچے کی مو ت کا سبب بن سکتے ہیں ۔ان تما م معرو ضا ت کے پیش نظر ضرورت اس با ت کی ہے کہ مند رجہ ذیل اقدا ما ت پر عمل کر تے ہو ئے ”ما ں اور نوزائید ہ بچے کی صحت” کے حو الے سے معلوما ت کو عا م کر نے کی تحر یک شرو ع کی جا ئے تا کہ دورا ن حمل اور زچگی یا اسکے بعد ماں اور بچے کو مو ت کے منہ میں جا نے سے بچایا جا سکے۔حکومت کو چا ہیے کہ ہر گا ئو ں میں انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق ٹر ینڈ دا ئیو ں کا اہتما م کر ے۔ہر تحصیل مقا م پر ایسے مستقل ڈیٹا کو لیکشن سنٹر قا ئم کئے جا ئیں جہا ں ریگو لر بنیا دو ں پر حا ملہ خوا تین کا مکمل ڈیٹا مو جو د ہو ۔اس ڈیٹا کی بنیا د پر ”با حفا ظت زچگی کی پلا ننگ کی جا ئے ۔غذائیت کے حو الے سے حا ملہ خوا تین کے لئے مکمل چارٹ پرنٹ کر کے فراہم کئے جا ئیں جس میں عام فہم زبا ن میں غذا ئی ضروریا ت کو پو را کر نے کے لئے معلوما ت مہیا کی جا ئیں ۔حاملہ خواتین کو بتا یا جا ئے کہ بچے کی پیدا ئش سے قبل 4 دفعہ ڈا کٹرسے را بطہ کر نا ضروری ہے۔ کتا بچے پر نٹ کر کے حا ملہ خوا تین ان کے شوہروں اور گھر والو ں کو مہیا کئے جائیں ۔غیر سر کاری سماجی تنظیموں کواس نیک کا م میں شا مل کیا جائے۔