محبت اور ایثار کا سر چشمہ ”ماں”

mothers day

mothers day

مدرز ڈے انگریز چاہے کیسے بھی ہوں مگر ایک بات تو ماننے والی ہے کہ انہوں نے ماں جیسے معتبر رشتے کیلئے ایک خاص دن تو مقرر کیا۔ ویسے تو ماں سے پیار، وفا، چاہت اورہر طرح کی پُر خلوص راحت کیلئے کوئی بھی دن نہیںہوتا ہے۔ وہ تو ہر لمحہ چاہے جانے کے قابل ہے۔ میں نے بھی آج مدرز ڈے کے حوالے سے ہی اس موضوع کو چُنا ہے لیکن میں اس موضوع کی شروعات میں شعر سے کرنا چاہوں گا۔

میرے سَر پہ میری ماں کی ایضأ شفقت ہے ورنہ
زمانے کی کڑی دھوپ میں اب تک جل چکا ہوتا

ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں سبھی اشرف المخلوقات چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک لیئے قابلِ قدر ہے۔ مگر خاص طور پر ہماری مشرقی ماں تو ہوتی ہی وفا کی پُتلی ہے۔ جو جیتی ہی اپنے بچوں کیلئے ہے ۔ ویسے تو دنیا نے ماں کیلئے ایک خاص دن کا تعین کر دیا ہے مگرجو ہر سال کے دوسری اتوار کومنایا جاتا ہے، چونکہ ہم حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور اسلام ہی ہمارا مکمل مذہب ہے اس لئے یہاں یہ ذکر ضرور کروں گا کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیائے عظیم کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔

ماں اپنی اولادوں کیلئے ایسا چھائوں ہے جس کا سایہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔ رب العزت فرماتا ہے، والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتائو کرو اور خاص طور پر اپنی ماں کے ساتھ۔ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مشہور ہے کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہرِ نامدار کا ہے جبکہ مرد پر اس کی ماں کا ہے۔ ویسے بھی ہر مسلم بچہ، نوجوان، غرض کہ ہر ذی شعور کو اس بات کا علم تو ہے ہی کہ باپ کے مقابلے میں ماں کا حق تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔

ماں کے حوالے سے ایک اور مفکر نے لکھا کہ اولاد کیلئے والدین کا پیغام ہے، جس دن تم ہمیں بوڑھا دیکھو صبر کرنا اور ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا، جب ہم کوئی بات بھول جائیں تو ہم پر طنز نہ کرنا اور اپنا بچپن یاد کرنا، جب ہم بوڑھے ہو کر چَل نہ پائیں تب ہمارا سہارا بننا اور اپنا پہلا قدم یاد کرنا، جب ہم بیمار ہو جائیںتو وہ دن یاد کر کے ہم پر اپنے پیسے خرچ کرنا جب ہم تمہاری خواہشیں پوری کرنے کے لیے اپنی خواہشیں قربان کرتے تھے۔

ماں کی مامتا اور اس کی نرم دلی کو بروئے کار لانا افضل اعمال میں سے ہے اور وہ آنے والے معاشرے کی اصلاح کا سنگِ بنیاد ہے۔ مرد اپنی طبعی خشونت ، سخت مزاجی اور فکر معاش کے باعث اس کی قدرت نہیں رکھتا، پس ماں اپنے قرب کو ایسا بنائے کہ اولاد وہاں راحت و سکون محسوس کرے شاید اسی بنیاد پر جنت ماں کے قدموں تلے کا مقولہ مستعمل ہوا۔

ماں اس نام کو پکارنے کو میں تو ترس گیا ہوں کیونکہ کہ میری ماں اس فانی دنیا میں نہیں ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ اعطا فرمائے (آمین) مگر اُن کے لئے یہاں ذکر ضروری ہے جن کی مائیں ابھی حیات ہیں، ایک ہستی تھی جو جان تھی میری، جو آن سے بھی بڑھ کر مان تھی میری، اللہ کے سوا کسی کو سجدہ ہوتا تو میں اپنی ماں کو سجدہ کرتا۔ میں اسی نتیجہ پر پہنچا کہ محبت کی بہترین ترجمان ماں ہے شاید اسی لیے محبت کا جب کوئی پیمانہ بناتا ہے تو وہ ماں ہی کے رشتہ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔

پودے کا سبزہ…پھول کی رنگت و خوشبو،…دریا کی روانی…کشتی کا قرار،…پھل کی مٹھاس…سورج کی روشنی،…آسمان کی بلندی…زمین کی وسعت …گھی کی نرمی…پرندے کی پرواز،…اور چکور کا عشق،…سب مل کر انسان کا پیکر بنے تومَر مَریں ستونوں کی بہشت ماں کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ” ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور اس شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ فرما دیجئے کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے، نبیٔ آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، تیری ماں پھر انہوں نے عرض کیا ، پھر کون، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، تیری ماں انہوں نے پھر عرض کیا، پھر کون، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، تیری ماں چوتھی مرتبہ یہی سوال پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، تیرے والدِ بزرگوار (صحیح بخاری، کتاب الادب)۔ ماں کی روداد کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس شعر کو بھی میں مضمونِ خاص کا حصہ بنانا چاہوں گا کہ،

نیند اپنی بُھلا کے سُلایا ہم کو
آنسو اپنے گِرا کے ہنسایا ہم کو
درد کبھی نہ دینا اُن ہستیوں کو
اللہ نے ماں باپ بنایا جن کو

ماں ویسے تو وفا کی پُتلی کہلاتی ہے مگر کیا اچھا ہو کہ وہ اس پر پوری اُترے تو اس کے لئے لازم ہے کہ ماں کے کیا حقوق ہیں۔ بس ہر عورت اتنا سوچ لے کہ اسے ماں بننا ہے اور ہر عورت کو ساس بھی بننا ہے۔ بہو اگر یہ سوچ لے کہ کل کو وہ بھی اپنے بیٹے کی بہو کی ساس بنے گی اور بیٹا اس کی نافرمانی کرے تو اسے کیسا محسوس ہو گا تو میری اتنی ہی گذارش ہے کہ وہ اپنی ساس کو بحیثیت ماں کے اس کے تمام حقوق ادا کرے تو یوں وہ خود اپنے آنے والے کل کے لیے اپنی عظمت کو محفوظ کر سکتی ہے۔

ماں تو ماں ہوتی ہے، اس لفظ ماں میں کتنی مٹھاس ہے۔ یہاں چند ملکوں کا ذکر کروں گا کہ ماں کو کیا کہہ کر پکارتے ہیں، اور آپ اندازہ کریں گے کہ رنگ و نسل، ذات پات، مذہب سب کچھ جدا جدا ہیں ان افرادی قوت کی مگر وہ ماں کو جو بھی کہہ کر پکاریں شیرینی سے پُرلفظ ہوتا ہے۔ ہم تو اپنی میٹھی زبان اردو میں ماں کو امّی، امّاں کہتے ہیں، ہند ی زبان میں ماں جی کہتے ہیں، اور عربی زبان میں ماں کو اھم کہا جا رہا ہے۔ بنگالی زبان کی رِدا میں ماں کو امّو یا ماں کہتے ہیں۔ جاپانی زبان میں ما ں کو اوکسان کہتے ہیں۔ انڈونیشین لینگویج میں ماں کو بینگ، مراٹھی زبان میں آئی کہتے ہیں۔ اور مغرب کے تمام ملکوں میں تو ویسے ہی ماں کو ممی کہتے ہی ہیں۔ سمجھنے اور سمجھانے کی بات یہ ہے کہ ماں کے زمرے میں استعمال ہونے والا لفظ تمام زبانوں کیلئے میٹھا اور سُریلا ہی ہے۔

ماں اسلام میں عطاعت و فرماں برداری کی ایک دینی فریضہ ہے، اپنے زندگی کا ہر لمحہ اس کی عظمت پر نثار اور تا حیات و تاعمر اس کی خدمت کو اپنا شعار بنانا ہی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اولادوں کیلئے نجات کا ذریعہ ہوگا۔ ماں کی خلوص و ایثار، کیلئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے،

ماں ساتھ ہے تو سایہ ٔ قربت بھی ساتھ ہے
ماں کے بغیر دن بھی لگے جیسے رات ہے
میں دور جائوں اُس کا میرے سر پہ ہاتھ ہے
میرے لیے تو ماں ہی میری کائنات ہے
ربِّ جہان نے ماں کو یہ عظمت کمال دی
اُس کی دعا پہ آئی مصیب بھی ٹال دی
قرآن میں ماں کے پیار کی اُس نے مثال دی
جنت اُٹھا کے مائوں کے قدموں میں ڈال دی

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی