تحریر: فرخ شہباز وڑائچ یہ بھارت ہے ایک ارب ستائیس کروڑ انسانوں کا ملک ،او ر اس میں ایک لڑکی ‘آروشی’ ہے۔آروشی بھارت کے شہردہلی کے ایک سکول کی انٹر کی طالبہ ہے۔ اس کی عمر لگ بھگ اٹھارہ سال ہے۔ 2009ء میں آروشی نے ایک عجیب وغریب کام شروع کردیا۔وہ سڑکوں پر ، کچرے کے ڈھیر پر اور کوڑے دانوں میں پڑی نظر کی عینکیں اٹھانے لگی۔ یہ وہ عینکیں تھیں جو پرانی ہوجاتی تھیں اور لوگ انہیں بے کار جان کرپھینک دیتے تھے۔آروشی ان عینکوں کو اٹھاتی اورخیراتی اداروں کو دے آتی۔دبلی پتلی سی یہ معصوم سی لڑکی اس بات سے لاعلم تھی کہ وہ انجانے میں کتنا بڑا کام شروع کرچکی ہے۔ یہ کام کرنے کا خیال اسے 10 سال کی عمر میں بھی آیا تھا جب اس کی عینک پرانی ہوگئی اور والدین نے اسے نئی عینک خرید کر دی تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ پرانی عینک کسی ضرورت مند کو دے دی جائے۔عمر کے کچھ برس اور گزرے تو اس ننھے ذہن نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس نقطے پر سوچنا شروع کیا۔ ابتدائی طور پر اس کی کم سنی آڑے آئی، لیکن دھن کی پکی آروشی نے بھی ہار نہیں مانی اور وقت کے ساتھ دوسروں کی مدد کرنے کا اس کا خواب سچ ہوتا چلا گیا۔
بھارت میں تقریبا 15 کروڑ ایسے لوگ ہیں جن کی بینائی کمزور ہے، انہیں صاف دیکھنے میں دقت ہوتی ہے۔ انہِیں عینک کی ضرورت ہے، لیکن مالی تنگی کے سبب وہ عینک خرید نہیں پاتے۔ اپنی سماجی ذمہ داری کے تحت آروشی اڑوس پڑوس، عینکوں کی دکانوں، مختلف اداروں اور اپنے جاننے والوں کے پاس سے عینکوں کے پرانے شیشے جمع کر مختلف این جی اوز تک پہنچاتی جہاں ان شیشوں کو صاف کرکے ، فریم میں ڈال کر ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا جاتاہے۔آورشی مختلف سماجی اداروں کی مدد سے مختلف علاقوں میں آنکھوں کے علاج اور بیماریوں سے متعلق مفت کیمپ کا انعقاد بھی کرواتی ہے۔اب تک کے سفر میں آروشی کے والدین نے اس کا مکمل ساتھ دیا اور اس کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اسکول نے بھی اس نیک کام میں اس کی ہر ممکن مدد کی۔ اس کے باوجود آروشی کا سفر اتنا آسان بھی نہیں رہا ہے۔ دوسروں کو اپنے اس خیال کے بارے میں سمجھانا اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج رہتا ہے۔ آروشی کا کہنا ہے کہ شروع میں کئی بار لوگوں سے کوئی رد عمل نہ ملنے سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اپنی اس مہم کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانے کے لیے آروشی روزانہ کئی لوگوں سے ملتی ہے ، انہیں اپنے اس کام کے بارے میں سمجھانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے پرانی عینک عطیہ کرنے کی اپیل کرتی ہے۔
Iran
آروشی کی کوششیں بیکار نہیں گئیں اوراب تک تقریباً 1500 سے زیادہ لوگ اس کی اس مہم سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ آروشی کہتی ہے کہ” عطیہ کرنے کی کوئی قیمت نہیں ہے، لیکن اس سے ہم نے بہت سے لوگوں کی دعائیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ”۔ دوسرا واقعہ ایران کا ہے۔۔۔کپکپا دینے والی سردی میں مشہد کی سڑک پرصبح سویرے گذرنے والوں نے ایک عجیب منظر دیکھا، ایک دیوار پر پرانے گرم کپڑے ٹنگے ہوئے تھے اور ساتھ ہی لکھا تھا”اگر آپ کو اِن کپڑوں کی ضرورت ہے تو لے جائیں’ نہیں ضرورت تو کسی ضرورت مند کے لیے چھوڑ جائیں”۔ ساتھ ہی جلی حروف میں ”دیوارِ مہربانی” کے الفاظ نمایاں تھے۔ایک سیکنڈ میں لوگ ساری بات سمجھ گئے۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعددیوار پر بیسیوں کوٹ، پینٹ اور دیگر ملبوسات ٹنگے ہوئے تھے۔جتنے ضرورت مند لباس لے کر جاتے اس سے کہیں زیادہ اس دیوار پر مزید آویزاں ہوجاتے۔ایرانی میڈیا کے مطابق جس شخص نے اس دیوار مہربانی کی ابتدا کی وہ گمنام رہنا چاہتا تھا۔ لیکن ان کا یہ انداز تیزی سے دوسرے شہروں میں پھیل گیا۔ ہزاروں ایرانیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو پھیلانے میں اہم کردار
نبھایا۔اس تحریک کو ملک میں جاری سرد موسم کی سختی کے ساتھ مقبولیت ملی۔پھر یہ سلسلہ ایران تک ہی محدود نہیں رہا، ضرورت مندوں کی مدد کا یہ سلسلہ پاکستان بھی آپہنچا۔ خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور،روشنیوں کے شہر کراچی اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ہوتا ہوا جب یہ” احساس مہربانی” لاہور پہنچا تو اسے مزید شہرت ملی۔ایشیا کی عظیم درسگاہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پانچ طلباء حسنین ،حارث ،سلمان،اسد،جاوید نے اس عظیم کاوش کو آگے بڑھانے کے لیے لاہور کے علاقے فردوس مارکیٹ میں ”دیوار مہربانی (Wall of kindness) بنا ڈالی۔اس دیوار کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کہ مخیر حضرات استعمال کے قابل اشیا ء اپنے پرانے کپڑے ،جوتے اور دیگر اشیاء اس دیوار کے ساتھ رکھ دیں اور کم وسیلہ افراد اپنی ضرورت کے مطابق یہ اشیا ء وہاں سے لے جائیں۔بے یارو مددگار لوگوں کی مدد کرنے کا کیسا نرالا انداز ہے۔’
Pakistan
‘دیوار مہربانی” کے اس عظیم سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے اس طرز کی دیواریں پاکستان کے ہر شہر میں تعمیر ہوں۔اب وقت آگیا ہے ہم نفرت کی دیواریں بنانے کی بجائے محبت کی دیواریں بنائیں جو لوگوں میں قربت کا باعث بنیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ابھی تک سینکڑوں لوگ ”دیوار مہربانی” کو دیکھنے اوراشیائے ضرورت رکھنے آئے ہیں۔میڈیا نے اس دیوار کی خبریں بھی دی ہیں اور مختلف زاویوں سے اسے دکھایا بھی ہے۔ اتنا ہی کافی ہے۔۔۔اب میڈیا کو اس دیوار کی ‘تاک’ میں نہیں رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو دینے والے دھڑادھڑ آتے رہیں اور لینے والے اس خوف سے دیوار کے قریب نہ جائیں کہ کہیں ان کی فوٹو بھی ٹی وی پر نہ چل جائے۔