محمد ضیا الحق

Muhammad Zia-ul-Haq

Muhammad Zia-ul-Haq

نام :: محمد ضیا الحق

تاریخ پیداءش :: 12 / 8 / 1924

17 / 8 / 1988 :: تاریخ وفات

وجھ شھرت :: پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ

ضیا الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں وہاں 1988 میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کیلیے ایک معمہ ہے۔ وہ تا دم مرگ، سپاہ سالار اور صدرات، دونوں عہدوں پر فائز رہے۔

جنرل محمد ضیا الحق پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ تھے جنہوں نے 1977 میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگایا اور بعد ازاں ملک کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیا الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں وہاں 1988 میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کیلیے ایک معمہ ہے۔ وہ تا دم مرگ، سپاہ سالار اور صدرات، دونوں عہدوں پر فائز رہے۔

ابتدائی زندگی
سابق صدر مملکت و سابق چیف آف آرمی سٹاف۔ 1924 میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945 میں فوج میں کمشن ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما ، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں۔آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964 میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولر رجمنٹ کی قیادت کی۔ اردون کی شاہی افواج میں خدمات انجام دیں ، مئی 1969 میں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھر بریگیڈیر بنا دیا گیا۔ 1973 میں میجر جنرل اور اپریل 1975 میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا۔ یکم مارچ 1976 کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

مارشل لا
1977 میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یوں ملک میں سیاسی حالت ابتر ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مزاکرات ہوئے۔ لیکن مزاکرات کی کامیابی سے پہلے ہی حالات کی خرابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانا ہے دوسرے فوجی حکمرانوں کی طرح یہ نوے دن گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے شدید مزاحمت کی۔ جس کے نتیجہ میں ان کو گرفتار کر لیاگیا۔ ان پر ایک قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ ہائیکورٹ نے ان کو سزا موت سنائی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ اس فیصلے پر جنرل ضیا الحق اثر انداز ہوئے۔ اور بھٹو کو سزائے موت دلانے میں ان کا اہم کردار رہا۔ یوں 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

اقتدار کو دوام
یوں ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لا کو دوام حاصل ہوا۔ اس کے بعد ضیا الحق کی یہ کوشش رہی کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھاجائے اس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا۔ اور بار بار الیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں اپنے حق میں ریفرنڈم کا ڈھونگ رچایا۔

انتخابات
فروری 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیا ۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر 30 دسمبر 1985 کو مارشل لا اٹھالیاگیا اور بے اعتمادی کی بنیاد پر آٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیا الحق نے 29 مئی 1988 کو جونیجو صاحب کی حکومت برطرف کر دی۔ ان پر نااہلی اور بدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ اسلام نظام نافذ کرنے کے کی ان کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا ہے ۔

اسلامی قوانین
عوام میں مقبولیت اور امریکہ کے اشارے پر انہوں نے ملک میں اسلامی دفعات نافذ کیں۔ اس دور میں اسلامی شدت پسندی امریکہ کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی۔ اسی شدت پسندی کو استعمال کرتے ہوئے سرد جنگ میں کامیابی کو یقینی بنایا گیا اور روس کاانخلا افغانستان سے ممکن ہوا۔ضیا الحق نے سرقہ، ڈکیٹی ، زنا، امتناع شراب ، تہمت زنا، اور تازیانے کی سزاں سے متعلق حدود آرڈینس اور زاکوا آرڈینس نافذ کیا۔ وفاقی شرعی عدالت قائم کی۔ اور قاضی عدالتیں جاری کیں۔

خارجہ پالیسی
ضیا الحق کے دور میں جہاد کو فروغ حاصل ہوا۔ افغانستان جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا اور یوں پوری دنیا سے جہادی پاکستان میں جمع ہوئے تاکہ افغانستان سے روس کا قبضہ ختم کرایاجا سکے۔ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے۔ ملک کے ایٹمی پروگرام پر ان کے دور میں کوئی سمجھوتہ نہیں گیا گیا اور یہ پروگرام جاری رہا۔ امریکہ کی طرف پاکستان کو فوجی اور اقتصادی امداد بھی دی گئی۔ جس کا فائدہ صرف فوج اور ایک خاص طبقے تک محدود رہا۔

تاریک دور
ضیا الحق کا مارشل لا پاکستانی تاریخ کا ایک تاریک دور رہا۔ ملک میں اظہار رائے پر مکمل پابندی لگائی گئی۔ اخبارات پر مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئیں ۔ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے جیلوں میں ڈالا گیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ غرض اس مارشل لا نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کو ترقیاتی فنڈز سے نوازا گیا جس کی وجہ سے سیاست نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کی۔ اور یہی کوٹہ سسٹم آج بھی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں ایک طرف اگر شدت پسندی میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف کلاشنکوف کلچر اور منشیات کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ملک میں سمگلنگ اور کرپشن میں اضافہ ہوا۔

انتقال
17 اگست 1988 کو بہاول پور کے قریب ایک ہوائی حادثے میں جنرل صاحب کی موت واقع ہوئی ۔ یوں ان کی موت کے بعد جناب غلام اسحاق خان نگران صدر منتخب ہوئے۔ نومبر 1988 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ضیا الحق کی موت کے حوالے سے تحقیقات کا آغا ز بھی ہوا لیکن آج تک ان کی موت کے متعلق کوئی حقیقت سامنے نہیں آ سکی۔