مدارس اسلامیہ بے روزگاری ختم کرنے کا ذریعہ

Islamic schools

Islamic schools

مدارس کا وجود اسلام اور مسلمانوں کے لیے کس قدرضروری ہے ،اسے ہروہ انسان سمجھ سکتا ہے جواسلام سے ہلکی سی بھی آشنائی رکھتا ہو۔مدارس جہاں دین کی تبلیغ و اشاعت کااہم ذریعہ ہیں وہیں وہ پورے ملک اور معاشرے کے لیے بھی انتہائی نفع بخش ہیں جس کا احساس حکومتی اہل کاروں کوبھی ہے مگر وہ اعتراف نہیںکرتے اورشایدکبھی کریں گے بھی نہیں ۔ مدرسے ہمارے ملک اورسماج کی جو خدمات انجام دے رہے ہیں وہ مختلف جہتوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔آئیے جائزہ لیں کہ ان مدارس کاوجودملک کے مفادمیں کیوں کر ہے ؟

Employment

Employment

ملک میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ جوں جوں ملک ترقی کرتا جارہا ہے بے روزگاری کا گراف گھٹنے کے بجائے بڑھ رہا ہے اور حکومتیں اس کے سامنے بالکل بے بس اور مجبور محض ہیں ۔ملک میں ایسے ایک نہیں کروڑوں نوجوان ہیں جوہاتھوں میں ڈگریاں لے کرگھوم رہے ہیں مگرملازمتیں حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔یہی نوجوان اپنے مطالبات منوانے اوراپناپیٹ بھرنے کے لیے ہروہ کام کرتے ہیںجن سے سرکاری مشنریاں اورحکومتیں پریشان ہوجاتی ہیں ۔ان کی حرکتوں کے خلاف قانون بنائے جاتے ہیں مگریہ لوگ قانون شکنی سے بھی بازنہیں آتے بلکہ کرسیوں پربراجمان لوگوں سے سازبازکرکے امن وامان غارت کرتے پھرتے ہیں۔ان کی حرکتوں سے شہری توپریشان ہوتے ہی ہیں ملک کے سنہرے مستقبل پربھی گہری دھندچھاجاتی ہے۔یہ حرکتیں ہرگزملک کے مفادمیں نہیں ہیں۔یہ سب لوگ دنیاوی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ دنیاوی تعلیم یافتہ لوگ یہی کام کرتے ہیںبلکہ مدعایہ ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے عموماًوہی ہوتے ہیں۔

Pakistan Religious STUDENTS

Pakistan Religious STUDENTS

دوسری طرف مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ملک بھرمیں لاکھوں کی تعدادمیں ہیں۔ یہاں ہرسال لاکھوں طلبہ فارغ ہوتے ہیںاورملک وبیرون ملک تبلیغ دین اور امن امان عام کرنے ،اظہار یک جہتی اور محبتیں بانٹنے میں لگ جاتے ہیں۔آ ج تک مدرسو ںکابڑاسے بڑامخالف بھی مدرسے کے کسی فارغ الحتصیل سے ایسی حرکت ثابت نہ کر سکاجوملک کے نظام کے خلاف ہویاجس سے امن وامان کوخطرہ لاحق ہو۔مدارس کی ڈگریاں عموماً عصری تعلیم کے حصول کاراستہ نہیں کھولتیں۔ (معذرت کے ساتھ عرض ہے )یہ ان کے لیے بالکل بے مصرف ثابت ہوتی ہیںاس لیے یہ روزگارکے لیے خودہی تگ ودوکرتے ہیں ۔ ان کے روزگارکے مراکز یاتومدارس ومکاتب ہیں یا مساجد ۔ ہرسال فارغ ہونے والے طلبہ انہیں مراکز میں کھپ جاتے ہیں ، اپنے مسائل خود ہی حل کرلیتے ہیں اورکسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کی گاڑی کھینچتے ہیں۔یہ حکومت کے لیے کبھی مسئلہ نہیں بنے اورحکو متی اہل کاران سے کبھی پریشا ن نہیں ہوئے ۔ان بے چاروں کی تنخواہیں بھی بہت قلیل ہوتی ہیںاتنی قلیل کہ وہ اطمینان وسکون سے اپناگھربھی نہیں چلا سکتے مگر پھر بھی وہ اللہ کے فضل وکرم کے بھروسے خوش وخرم اوراطمینان بھری زندگی گزار لیتے ہیں ۔اس تناظرمیں ہمارایہ کہناصحیح ہے کہ یہ مدارس بے روزگاری ختم کرنے میں حکومت کے معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں ہزاروں مدارس ہیںاور ان میں لاکھوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ہزاروں نئے طلبہ کی ہرسال ملک بھر کے مختلف مدارس میں تقرری کی جاتی ہے اور ان کی تنخواہیں غریب مسلمان ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ مدارس نہ ہوں توکیایہ نوجوان علماملک پربوجھ نہیں بنیں گے ، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا اور اس سے حکومت کی پیشانی پربل نہیں پڑیں گے؟فرقہ پرستوںکواگراس کااحساس نہیں ہے توکم ازکم حکومتی اہلکاروں کو تو اس کااعتراف کرناچاہیے اور انہیں مدارس کاشکرگزاربھی ہوناچاہیے کہ مدارس کی وجہ سے ملک میں ایک اچھی خاصی آبادی (چھوٹاموٹاہی سہی)روزگارسے جڑی ہوئی ہے اوراپنے اہل خانہ کی کفالت کررہی ہے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ الامان والحفیظ۔ جرائم بڑھتے جارہے ہیں، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، قتل وغارت گری، عصمت دری ،بات بات پر لڑائی جھگڑے، زمینوں پر ناجائز قبضہ، ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی غرضیکہ کون سی برائی ہے کہ جس میں ہمارا معاشرہ گلے گلے تک ڈوبا ہوا نہ ہو اوربدعنوانی نے توپوری سوسائٹی کوہی تباہی کے دہانے پرپہنچادیاہے ۔ان برائیوں کے سامنے انتظامیہ بے بس ہے اورحکومت مجبور۔ افسران منصوبہ بندی کر تے ہیں مگر سارے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں۔ مجرمین ان کی ناک کے نیچے جرم کرتے ہیں اور یہ افسران کچھ نہیں کرپاتے اور وہ کیونکر کرنے لگیں کہ وہ خود ہی اس میں ملوث ہوتے ہیںالاماشاء للہ۔ حقائق چیخ چیخ کراعلان کررہے ہیں کہ بعض نہیں بیشترسرکاری افسران بھی ان برائیوںمیں لت پت ہیںتوایسی صورت میں ظاہر ہے کہ برائیاں کم ہونے کے بجائے بڑھیں گی اور ان پر روک لگانے کی ساری کوششیں بے کار ثابت ہوں گی۔یہاں حکومت سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا مدارس کے تعلیم یافتگان کو کبھی ان خطرناک جرائم میں ملوث دیکھا گیاہے ؟ اور اگر ایسی کوئی مثال بھی ہوگی تو وہ دال میں نمک کے برابربھی نہیں ہے ۔اگرکچھ لوگ بنام مسلمان ایسی حرکتیں کرتے ہیںتو ا ن کااسلام سے دورکابھی کوئی تعلق نہیں۔

یہ مدارس کی ہی برکت ہے کہ اس کے فیض یافتگان میں جرائم پیشہ لوگ نہیں ہیں کیوں کہ مدارس ان ساری خرابیوں پر قدغن لگاتے ہیں۔ وہ اپنے فرزندوں کو اس بات کی سختی سے تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعظ و ارشاد سے ایسا صالح معاشرہ تشکیل دیںکہ جرائم وہاںپنپ نہ سکیں۔حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو صالحیت نظرآتی ہے یہ سب اسلامی تعلیمات کی دین ہے اوراس کے پس پشت یہی علمااورمدارس کے فارغین کی کوششیں کارفرماہیں۔

جیلوں میں لاکھوں قسم کے مجرمین بند ہیں۔ ان میں بہت سارے وہ بھی ہیں جو بار بار جرم کرتے ہیں اور بار بار جیل پہنچ جاتے ہیں مگر جرائم کرنا بند نہیں کرتے ۔اگر انتظامیہ میں شامل افراداپنے ملک کے تئیں حساس ہوںاوراپنے فرائض صحیح طورسے اداکریںتو یقین ہے کہ جرائم کا اتنا زیادہ فی صد نہ ہو،جیلوں میں اتنے کثیرقیدی نہ ہوں اور حکومت کو جیلوں میں بند لاکھوں مجرمین کی رہائش اور کھانے پینے کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ نہ کرنا پڑے ۔ یہ مدارس ہی ہیں جوجرائم پرسختی سے روک لگانے کی کوشش کرتے ہیں،لوگوں کو خدا کا عذاب یاددلاتے ہیں اور امن وامان اورپیار کا پیغام عام کرتے ہیں۔ اس جہت سے دیکھیں تویہ کہنا بجاہے کہ ان مدارس کا قیام خود ملک کے حق میں ہے۔ جس کام پرحکومتیں بے بس ہیںیہ مدارس صرف پیار ومحبت سے اس پر روک لگا دیتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ غریب مسلمان اپنی حلال کمائی سے مساجدومدارس کی تعمیرکرتے ہیںاس کے لیے وہ حکومت سے کبھی امدادطلب نہیں کرتے ۔البتہ جومدارس ایڈیڈہیںوہاں کے مدرسین کی تنخواہیں ضرورحکومت کے خزانے سے آتی ہیںمگرتعمیرکے لیے امدادمانگی گئی ہواس کی مثالیں بھی اقل ترین ہیں۔اس لیے مدارس کی خدمات کے تناظرمیں حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ مدارس کے ذمے داران کی حوصلہ افزائی کرے اورزیادہ سے زیادہ مدارس کو ایڈیڈ کرکے انہیں خودکفیل بنائے ۔ یقینایہ ملک کے بھی حق میں ہوگااورسماج کے بھی ۔مدارس کی خدمات کے پیش نظریہ کہنابجااورصحیح ہوگاکہ مدارس حکومتی امدادوتعاون کے سب سے زیادہ مستحق ہیںکیوں کہ ان کے ذریعے بہت حدتک حکومتی مفادکاکام ہورہاہے ۔

تحریر: صادق رضامصباحی،ممبئی
موبائل:09619034199