مراکش (جیو ڈیسک) مراکش کے دار الحکومت ربات میں حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم سینکڑوں کارکنوں نے مظاہرہ کیا۔یہ مظاہرہ ملک میں جنسی زیادتی سے متعلق اس قانون کے خلاف کیا گیا جس کے مطابق جنسی زیادتی کرنے والا شخص سزا سے بچنے کے لیے زیادتی کا شکار عورت کے ساتھ شادی کر سکتا ہے۔یہ مظاہرہ انٹر نیٹ پر ایک خبر کے بعد کیا گیا جس کے مطابق شمالی مراکس مںی ایک سولہ سالہ لڑکی آمنہ فیلالی نے خودکشی کر لی۔ مطاہرین نے اس قاونو کے خلاف نعرے بلند کیا۔ ان کا کہنا تھا اس قانون نے آمنہ کو قتل کیا۔ آمنہ کے والدین کا کہنا ہے کہ اس پر عدالت کی جانب سے دبا ڈالا گیا کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے شخص سے شادی کر لے۔آمنہ کا کہنا تھا کہ اس کہ شوہر اور اور اس کے خاندان نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ اس کے بعد آمنہ نے چوہے مار گولیںا کھگ کر خود کشی کر لی۔مراکش کے قانون میں آٹھ سال قبل ترمیم کی گئی تھی تاکہ عورتوں کے لیے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم حقوقِ نسواں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ مراکش میں شادی کے لیے قانونی عمر اٹھارہ برس ہے تاہم مخصوص حالات میں اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ آمنہ کے معاملہ میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ایک جج صرف اسی صورت میں شادی کی صلاح دے سکتا ہے جبک فریقین اس کے لیے راضی ہوں۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اکثر والدین بدنامی سے بچنے کے لیے دبا میں آکر یہ فیصلہ کر جاتے ہیں۔آمنہ کے والد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیٹی سے جنسی زیادتی کا مقدمہ دائر کیا تو عدالتی حکام نے انہیں اس کی شادی کروا دینے کی صلاح دی۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ آمنہ سے زیادتی کرنے والے شخص اور اسے شادی کے لیے کہنے والے جج دونوں کو جیل بھیجا جائے۔