سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں بارہ اکتوبر کا حکم برقرار رکھتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت اندرونی خلفشار روکنے کیلئے آئینی اقدامات اٹھانے کی پابندی ہے لیکن ایف سی بھجوانے کے سوا کوئی تعاون نہیں کیا گیا اور نہ ہی عدالت کو اب تک جواب دیا گیا کہ بلوچستان حکومت کس اتھارٹی کے تحت کام کر رہی ہے عدالت کے عبوری حکم کے مطابق صوبے میںلاپتہ افراد مسخ شدہ لاشوں اور ٹارگٹ کلنگ کے تمام واقعات سی آئی ڈی کو منتقل کئے جائیں ۔
صوبے میں صاف شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے ۔ڈیرہ بگٹی کے ڈیڑھ لاکھ مہاجرین کی آبادکاری کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ گاڑیوں اور اسلحہ کی راہ داریاں جاری کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ بلوچستان حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور صوبے میں خفیہ ایجنسیوں کی بھی مداخلت ہے صوبائی حکومت امن و امان میں مکمل ناکامی پر اپنا حق حکمرانی کھو چکی ہے جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی دوران رحمان ملک کا کہنا تھا کہ آپ نے مجھے نہیں سنا تو تاریخ آپ کو معاف کرے گی نہ مجھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ ہمیں تو معاف کردے گی لیکن آپ کو نہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی یہ بات واقعی ایک حقیقت ہے کیونکہ جو کام ہمارے حکمرانوں کو کرنا چاہیے تھے وہ عدالتوں نے کیے یہی وجہ ہے کہ عدالتوں کو اپنے کام کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
جبکہ حکمرانوں نے سوائے لوٹ مار کے اور کچھ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے حالات بد سے بدتر ہورہے ہیںان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اگر بلوچستان کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو علیحدگی پسند قوتوں کو تقویت ملے گی بلوچستان میں حالا ت خراب ہیں اور علیحدگی کی باتیں کی جارہی ہیں اگر ایسے حالات میں بلوچستان کے عوام کی بات نہ سنی گئی اور حکمران اپنی مرضی مسلط کرتے رہے تو پھر بلوچستان کے حالات کسی کے بھی قابو میں نہیں رہیں گے اس لیے بعد میں پچھتانے سے اچھا ہے کہ ناراض بلوچیوں کے مطالبات مان کر انکے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جاسکے ۔ بات ہو رہی تھی۔
چیف جسٹس کی اور چیف جسٹس کی اصل طاقت وکلاء برادری ہے جنہوں نے چیف جسٹس کی معطلی کے دنوں میں انکا بھر پور ساتھ دیا اور پھر انہی کی جدوجہد سے افتخار محمد چوہدری دوبارہ چیف جسٹس بنے اور عدلیہ کی بحالی میں وکلاء کا کردار ناقابل فراموش ہے اور وکلاء نے اپنی جدوجہد سے عدلیہ کو بحال کرایا اور قربانیاں دیں۔ 9 اپریل 2008ء کو وکلاء کو زندہ جلایا گیا اور 12 مئی کو کراچی میں وکلاء پر فائرنگ ہوئی اور اب عدلیہ کی آزادی کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے عدلیہ سے عوام کی توقعات بڑھتی جارہی ہیں اورعوام کو ان کی دہلیز پر سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا اب عدلیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔
عدلیہ کے ان فیصلوں سے جہاں عوام میں خوشی کے احساسات پائے جارہے ہیں وہی پر وفاقی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بغاوت قرار دینے اور کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کرنے کے بیا ن پر انتہائی تشویش پائی جاتی ہے جس میں سیکرٹری داخلہ نے 65سالہ قومی مئوقف کی ہی نفی نہیں کی بلکہ لاکھوں کشمیری شہدا کے خون سے غداری اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اصل رکاوٹ پاکستان کا حکمران طبقہ اور بیوروکریسی کی صفوں میں موجود ایسی کالی بھیڑیں ہیں جنھیں قوم کے احساسات کی کوئی فکر نہیں ہے اور بابائے قوم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اقوام متحدہ نے اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کر رکھا ہے جس کا فیصلہ کشمیریوں کے حق خودارادیت سے ہونا ہے جبکہ پاکستانی قوم اہل کشمیر کے ساتھ ہے اور کشمیریوں کی آزادی تک ان کی حمایت جاری رکھے گی۔