عام انتخابات قریب تر ہیں مگرآج محنت کش غریب عوام سے ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کواپنے بے رحمانہ اقدامات کی بھینٹ چڑھا کر اِس کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے آج ماضی کی ہر حال میں زندگی سے بھر پور رہنے والی پاکستانی قوم کے سامنے مسائل کے انبار تو ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اِس کی زبان پہ فریاد کرنے کو الفاظ اور آنکھوں میں رونے کو آنسو تک نہیں ہیں ۔
جی ہاں..! قوم کی یہ حالت اِس ہی حکومت نے بنائی ہے جس نے پچھلے پانچ سالوں کے دوران باکثرت روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ تو بہت لگایا (مگرغریبوں کے بجائے اپنے لئے ) اور اِس طرح اِس نے قوم کو سوائے تکالیف دینے اور طرح طرح کے بحرانوں میں جکڑنے کے کچھ نہیں کیا ہے …؟ اور آج یہی وجہ ہے کہ ساری پاکستانی قوم ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
آج پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام مہنگائی ، بے روزگاری ، توانائی (بجلی و گیس )کے بحرانوں، فرقہ وارانہ فسادات ،ٹارگٹ کلنک ، بم دھماکوں،دہشت گردی ، قتل وغارت گری ، لوٹ مار اور کرپشن سمیت کس کس کو روئیں…؟ ملک کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہو پاتا تو دوسرا مسئلہ اپنی ہولناکی لئے سر اُٹھائے کھڑا ہو جاتا ہے اَب اِس کیفیت سے زیادہ تر قوم اُس وقت سے گزر رہی ہے جب سے یہ عوامی اور اپنی نوعیت کے پہلی اور انوکھی پانچ سالہ اپنی مدت پوری کرتی جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے۔
ایسے میں میراخیال یہ ہے کہ اِس جمہوری حکومت نے او ل روز سے ہی قوم کے دامن سے اُجالے چھین کر اِس میں اندھیرے بھر دیئے ہیں اور اِس پر بھی قوم کی پریشانیوں اور اِس کی خستہ حالی سے بے خبر حکمرانوں کا دعویٰ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے اقتدار کے اِس سارے عرصے میں قوم کی خدمت کو اپنا شعار منانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے حالانکہ موجودہ حالات میں حکمرانوں کے نزدیک حکومتی معاملات اور ترجیحات میں ایک ایجنڈا مصالحت پسندی اور باہمتی پالیسی سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے اور ہمارے فہم و فراست سے لبریز صدرِ محترم عزت مآب آصف علی زرداری کی تو ترجیحات میں اِس ایجنڈے کے سِوا اور کوئی ایجنڈا رہ ہی نہیں گیا ہے کیوں کہ اِنہوں نے تو اپنی اِسی مصالحت پسندی اور اپنے پرائے کی چاپلوسی کرنے کی بنیاد پر ہی اپنی حکومت کے پانچ سال گزار دیئے ہیں اور پھر بھی اِس پر یہ اُمید کئے بیٹھے ہیں کہ یہ آئندہ بھی اِسی بنیاد پر پھر اقتدار کی مسند پر اپنے قدم رنجافرمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جبکہ ایک طرف حوصلہ شکن امر یہ ہے کہ عوام مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں تو دوسری طرف جمہوری حکومت کے صدر اور وزیراعظم کی خوش فہمی اور عوامی مسائل اور تکالیف سے لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنا احتساب کئے بغیریہ دعویٰ کرتے نہیں تھک رہے ہیں کہ ” الیکشن صاف وشفاف ہوئے تو اگلی حکومت بھی ہماری ہو گی ، صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بجلی بحران کی وجہ سے صنعتوں کے درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں ، ملک کو آمریت سے جمہوریت کی طرف لے جا رہے ہیں ، عوامی مسائل جمہوری حکومت میں ہی حل ہوتے ہیں، ملک کی ترقی کے لئے طویل المدت پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی ، معیشت کا استحکام حکومت کی اولین ترجیح ہے ہم نے مفاہمتی پالیسی اپنا کر 5 سال حکومت چلائی ہے جس سے ملک میں بہتر ی آئی ہے ہم آئندہ پانچ سال کے لئے بھی حکومت میں آکر معیشت کی بہتری کے لئے موثر اقدامات کریں گے”۔ اور ایسے بہت سے انگنت دعوے ہیں جنہیں سُن ، پڑھ اور دیکھ کر جہاں حیرانگی اور پریشانی کی انتہا نہیں رہتی ہے تو وہیں ہر پاکستانی یہ بھی سوچے بغیرنہیں رہ سکتا ہے کہ جن اقدامات کا جابجا تذکرہ ہمارے صدر ، وزیراعظم اور حکومتی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کرتے پھرتے ہیں آخر ایسے اقدامات ملک کے کس کونے میں کئے گئے ہیں جس سے ملک میں ذرا سی بھی بہتری آئی ہو…. اور معیشت کا تو کیا کہنے …؟ اِس کی جو حالت ہے آج یہ بھی سب کے سامنے ہے اَب اِسی سے ہی ملکی معیشت کا اندازہ کر لیا جائے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کا کیا معیار ہوگیا ہے…؟ اگر یہی لوگ جنہوں نے ملک اور قوم اور معیشت کا بُراحال کردیاہے ذرا سوچو کہ اگر یہی عناصر پھر پانچ سال کے لئے برسرِ اقتدار آگئے تو پھر کیا حال ہو گا…؟ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔
اِن حالات میں کہ جب حکمران طبقہ اپنے مفادات کے خاطر عوا می ترجیحات کو خاک میں ملارہاہے تو ایسے میں مہناج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ملک میں آئندہ ہونے والے انتخابات کے صاف وشفاف انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے انتخابی نظام میں جامع اصطلاحات اور ملک اور قوم کو مسائل کی دلدل اورپستی کے گھپ اندھیروں سے نکالنے کے لئے ریاست بچاؤ..لٹیرے بھگاو ٔایجنڈالے کر مفلوک الحال پاکستانی قوم کے حقیقی رہنماء اور مخلص قیادت کے روپ میں نمودار ہو گئے ہیں جس کے لئے علامہ طاہرالقادری نے وطن عزیز پاکستان کو گم نامی میں جانے اورقوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے اور پناہ کے لئے بھٹکتی پاکستانی قو م کو ایک نئی راہ دِکھانے کے لئے گزشتہ اتوار کو لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں ایک بڑاعوامی اجتماع منعقد کیا۔
Tahir Ul Qadri
جس سے اُنہوں نے اپنے خطاب کے دوران موجودہ حکمرانوں کو مخاطب کرکے اِن کے کانوں کے پردوں سے حب الوطنی کے جذبات جس طرح ٹکرائے ہیں یقینا اِس سے برسرِ اقتدار جماعت کے حکمرانوں کے چودہ طبق ضرور روشن ہو گئے ہوں گے اور اِس کے ساتھ ہی اِنہوں نے برسرِ اقتدار طبقے کو اپنی اصلاح کرنے اور عام انتخابات سے قبل انتخابی نظام کو درست کرنے کی تین ہفتے کی جو مہلت دی ہے مجھے یقین ہے اِن کے اِس ایجنڈے کی ایم کیوایم کی جانب سے کی جانے والی بھرپور حمایت کے بعد اِن پر لازمی طورپر لرزہ طاری ہو گیا ہو گا مگر اِس کے باوجود بھی اگر حکمران طبقہ اپنی کل سیدھی نہ کر سکا تو پھرعلامہ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ”14چودہ جنوری2013کو چالیس لاکھ محب وطن پاکستانی خالصتاََ ریاست بچاؤ ..لٹرے بھگاؤ”جذبے سے سرشار ہو کراسلام آباد پہنچیں گے اور پھرخود اپنے ہاتھ سے ملک اور قوم کا ستیاناس کرنے اور قومی دولت کو لوٹنے والوں کا اگلا پچھلا سارا حساب کتاب برابر کر دیں گے ۔
اِس پر میں یہ سمجھتاہوں کہ (ابتدائی چندسالوں کے حکمرانوں کے سوا)66سالوں سے پاکستانی قوم پر جس کسی نے بھی حکمرانی کی اِس نے ملک اور قوم سے زیادہ اپنی ذات اور اُن لوگوں کے بارے میں زیادہ سوچاجس نے اُسے اقتدار دلایا مگر اَب یہاں شاید ایسا نہیں ہو گا کیوں کہ 23دسمبرکو علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے نورانی چہرے میں ملک اور قوم کوایک مخلص اور دیانتدار قیادت مل گئی ہے اور اگر سیاسی گِدوں نے اِنہیں اپنی سازشوں کا نشانہ بنایا اور اِن کے نیک عزائم کی تکمیل کے سامنے رکاوٹیں ڈالنے کے لئے پہاڑ کھڑے کئے توپھر میںیہ کہوں گاکہ ملک میں جمہوریت کے بجائے عزت مآب محترم المقام جناب آمر بھائی جان اپنی غیرت بھری آمریت کے ساتھ ملک پر قابض ہو جائیں(یہاں میں اپنے معزز قارئین کے لئے یہ واضح کرتاچلوں کہ ہماری ملکی 66سالہ تاریخ میں آمر بھائی جان کی عمر لولی لنگڑی جمہوریت کے مقابلے میں قدرے بڑی ہے اور میری عادت یہ ہے کہ میں ہمیشہ بڑوں کی عزت کرتا ہوں سو اِس لئے میں نے آمر اور اِس کے نظامِ آمریت کو مندرجہ بالاالقابات نوازہ ہے) اور ایسے جمہوری طبقے کو کچل کر رکھ دے جو معصوم عوام کو دووقت کی روٹی سے بھی محروم رکھتا ہے اور (آمربھائی جان) خود اقتدار پر اپنا جوتا رکھ کر اور ڈنڈا گاڑ کر اُس وقت تک حکمرانی کرے جب تک ملک کو مخلص اور دیانتدار جمہوری قیادت نہیں مل جاتی ہے۔
کیوں کہ آج ساری پاکستانی قوم کسی ایسے مسیحاکی تلاش میں ہے جو اِس کے دُکھ اور درد کامداوا کرے(خواہ، ایسی قیادت منہاج القرآن، ایم کیو ایم، تحریک انصاف یا فوج سے آئے) اور اِسے اِن مسائل سے نجات دلائے جن میں موجودہ جمہوری حکمرانوں نے اِسے جکڑ رکھا ہے اور آج جس کی تکلیف بیان کرنے کو اِس کے پاس الفاظ نہیں ہیں اور جب روئے تو آنکھوں سے آنسو بھی نہیں نکلتے ہیں۔