نوازشریف اگلے چار سال کے لئے مسلم لیگ (ن) کے ہو گئے۔ اس اعزاز پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حالانکہ یہ محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ جس پارٹی کے نام میں نوازشریف کا نام شامل ہے اس کی سربراہی نوازشریف کے ہوتے ہوئے کون کر سکتا ہے؟ نواز کے بغیر نوازلیگ کا تصور محال ہے۔ کافی دن پہلے مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔ شہبازشریف نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے کام چلایا۔ اب شاید مسلم لیگ (ن) کو زیادہ متحرک اور سرگرم بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ انتخابات اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ ان انتخابات میں کسی امیدوار کیخلاف دوسرا امیدوار موجود نہیں تھا۔ صرف امیدواروں کے ناموں کے اعلان ہوئے اور وہ بلامقابلہ منتخب قرار پائے۔ سرتاج عزیز مدتوں سے مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل چلے آ رہے ہیں۔ اس بار بھی وہی مستحق ٹھہرے۔ چند ہفتوں کے بعد وہ پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ وہ ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا۔ راجہ ظفر الحق دوبارہ چیئرمین منتخب کئے گئے۔ مسلم لیگ (ن) میں یہ عہدہ موجود نہیں تھا۔ اسے شریف برادران کی جلاوطنی کے موقع پر تخلیق کیا گیا اور اس وقت سے راجہ ظفر الحق ہی اس پر فائز چلے آ رہے ہیں۔ آئندہ چار سال کے لئے بھی وہی چیئرمین رہیں گے۔غوث علی شاہ اور یعقوب ناصر سینئر نائب صدر چنے گئے۔ مگر جاوید ہاشمی کا نام امیدواروں میں نہیں تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے خود نوازشریف سے کہا تھا کہ ان کی صحت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے رہی اس لئے وہ چاہیں گے کہ انہیں کوئی ذمہ داری نہ دی جائے۔ ان کا نام امیدواروں کی فہرست میں نہیں دیا گیا تھا۔ اسی پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ مندوبین کو جب پتہ چلا کہ جاوید ہاشمی کا نام امیدواروں میں شامل نہیں تو ہرطرف سے جاوید ہاشمی جاوید ہاشمی کے نعرے بلند ہونے لگے اور یہ مطالبہ تب تک جاری رہا جب تک شہبازشریف نے مائیک پر آ کر جاوید ہاشمی کی نائب صدارت کا اعلان نہیں کیا۔ جیسے ہی ان کا نام آیا پورے ہال میں ان کی حمایت کے نعرے گونجنے لگے اور اس طرح پارٹی کے پرزورمطالبے پر جاوید ہاشمی کو جماعت کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ یہ پارٹی کی طرف سے جاوید ہاشمی کی قربانیوں کا صلہ تھا۔ اس موقع پر خود نوازشریف نے بھی جاوید ہاشمی کا منہ چوم کر ان کی وفا اور خدمات کا اعتراف کیا۔ احسن اقبال پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل چنے گئے۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ انہیں ترقی ملی ہے یا تنزلی؟ لیکن احسن اقبال جیسے سرگرم اور ہمہ وقت مستعد لوگوں کے لئے عہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اپنی کارکردگی سے ہر منصب کو اہمیت دلا دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات کا عہدہ پھر مشاہد کے نام نکلا۔ مگر اس بار مشاہد حسین کی بجائے مشاہد اللہ ہیں۔ وہ ایک ٹریڈیونین لیڈر اور مخلص سیاسی کارکن ہیں۔ عمومی طور پر پارٹی کے عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی کارکردگی قربانیوں اور پارٹی کے ساتھ ناقابل شکست وابستگی کو سامنے رکھا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابات کے بعد میڈیا پر یہ سوال پھر سے اٹھایا گیاکہ ہماری سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کے غلبے ہیں۔ یہ اعتراض غلط نہیں۔ لیکن جس معاشرے میں خاندانی نظام اپنی قدیم حالت میں ایک ٹھوس حقیقت کے طور سے موجود ہو وہاں کی سیاست سے خاندان کو الگ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ محض پاکستان میں نہیں پورے برصغیر کی سیاست میں دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی قومی سیاست میں نہرو خاندان کا اثرورسوخ آج بھی مسلمہ ہے۔ پنڈت جی کے بعد ان کی صاحزادی کو قیادت ملی۔ ان کے بعد یہ ورثہ بیٹے کو ملا۔ راجیوگاندھی کی موت کے بعد سونیا گاندھی نے کافی عرصے تک سیاست سے گریز کیا۔ جس کے نتیجے میں کانگریس کی طاقت بکھرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ مجبور ہو کر سونیا گاندھی کو پارٹی کی قیادت سنبھالنا پڑی اور جیسے ہی پارٹی نے ان کے زیرقیادت الیکشن میں حصہ لیا تو وہ حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔ اب راہول گاندھی مستقبل میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ قومی سطح پر کوئی دوسرا سیاسی خاندان نہرو خاندان کا مقابلہ نہیں کرتا۔ لیکن ریاستوں اور انتخابی حلقوں میں بھی روایتی سیاسی خاندانوں کا کردار ہی نمایاں ہے۔ سری لنکا میں بندرانائیکے خاندان طویل عرصے تک سیاست پر چھایا رہا۔ بنگلہ دیش میں دو بیگمات ایک مد ت سے سیاست پر حاوی ہیں۔ ایک وزیراعظم بنتی ہے تو دوسری اپوزیشن لیڈر ہوتی ہے اور دوسری وزیراعظم بنتی ہے تو پہلی اپوزیشن لیڈر کا منصب سنبھال لیتی ہے۔پاکستان میں شریف خاندان سے پہلے بھی بیشتر قابل ذکر پارٹیاں خاندانوں کے حوالے ہی سے جانی جاتی ہیں۔ بھٹو خاندان کی سیاسی طاقت اور مقبولیت کو نہرو خاندان سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اے این پی باچا خان کے خاندان سے منسوب ہے۔ ان کے بعد ولی خان پارٹی کے سربراہ بنے۔ پھر ان کی بیگم صاحبہ نے قیادت سنبھالی۔ اب ان کے صاحبزادے اسفند یار ولی خان پارٹی کے قائد ہیں۔ بلوچستان کے روایتی سیاسی خاندان پارلیمانی سیاست سے باہر نکل گئے ہیں۔ لیکن جب بھی وہاں حالات معمول پر آئیں گے بگٹی مری بزنجو مینگل اور رئیسانی خاندانوں کے نمائندے ہی اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ مذہبی جماعتوں میں مفتی محمود کا خاندان اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرتا جا رہا ہے۔ اسی طرح چودھری ظہورالہی کا خاندان بھی اپنی سیاسی شناخت کو نمایاں کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔انتخابی حلقوں کی سیاست بھی روایتی انداز میں ہی آگے چل رہی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں مغربی طرز پر قیادت کے فیصلے کارکردگی اور اہلیت کی بنیادوں پر ہوں گے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی منظم سیاسی جماعت جڑیں ہی نہیں پکڑ سکی۔ الطاف حسین ایک ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی جماعت میں خاندانی تسلط قائم کرنے سے گریز کیا۔اس کے باوجود وہ بیرون ملک بیٹھ کر بھی اپنی جماعت کی موثر رہنمائی کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد مثال ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ الطاف حسین کے بعد یہ جماعت کس طرح چلے گی اور اس میں قیادت کے فیصلوں کی بنیاد کیا ہو گی؟جماعت اسلامی البتہ خاندانی اثرات سے محفوظ رہی ہے۔ اس کی سیاسی طاقت افراد کے بجائے تنظیم کے اندر موجود ہے۔ تنظیم ہی لیڈروں کو آگے لاتی ہے اور وہ اپنی اپنی معینہ مدت پوری کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ تسلسل خاندان کا نہیں پارٹی کا ہے۔ لیکن اس کے مذہبی تصورات اور طرزکارمیں اس پھیلا کی گنجائش نہیں جو ہمہ گیر سیاسی پارٹیوں کا ہوتا ہے۔مجموعی طور پر پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں میں خاندانی قیادت پائی جاتی ہے۔ بھٹو خاندان شریف خاندان اور چودھری خاندان۔ صرف ایم کیو ایم پر خاندانی چھاپ نہیں لیکن الطاف حسین کی شخصیت اس جماعت پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا خاندانوں کے زیراثر رہنا قابل تعریف سیاسی روایت نہیں ہے۔ لیکن کوئی بھی سیاسی روایت معاشرے کی ساخت سے علیحدہ قائم نہیں کی جا سکتی۔ جب تک ہمارے ہاں قبائلی نظام ذات برادری اور مشترکہ خاندان نظام قائم ہے ہماری سیاست بھی انہی کے زیراثر رہے گی۔ تحریر : نذیر ناجی