پاکستان کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک جمہوریت کا نام لیکر جمہوریت پسند سیاست دانو ں نے جو ملک کا حشر نشر کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ آج وہ لوگ ملک پر قابض ہیں جنھیں جمہوریت کی الف ب بھی نہیں معلوم اور اگر معلوم ہے تو عملی طور پر اسے اپنانے کو تیا ر نہیں کیونکہ جمہوریت کو اپنانے سے ان نام نہاد جمہوریت پسندوں کی آمریت جو ختم ہوجائیگی۔ ان جمہوری آمروں کا کام تو بس ملک کو لوٹنا اور عوام کا خون چوسنا رہے گیا ہے کیونکہ اس سے زیادہ انھیں کچھ آتا ہی نہیں انھیں سیکھایا ہی یہی جاتا ہے کہ اس ملک پر راج کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اس ملک کی عوام کا اتنا خون چوس لو کے اس میں سوچنے سمجھنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ہمارا سامنا کرنے کی طاقت ہی نہ رہے۔ یہ نام نہاد جمہوریت پسند سیاست دان آئین و قانون کی باتیں کرنے والے پارلیمنٹ کو سپریم کہنے والے اسی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنی آمرانہ سوچ اور مفاد پرستانہ رویوں سے کس طرح آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں یہ بات سب پر عیاں ہے۔ ان جمہوری آمروں سے تو وہ فوجی جنرل بہتر ثابت ہوا جس نے آمریت کے موسم میں بھی جمہوریت کا بیج بو کر جمہوریت کو پروان چڑھایا اور اپنے دور ِ اقتدار میں جمہوریت کو ہی بنیاد بنا کر پاکستان کی غریب مسائلوں میں گھری عوام کو ریلیف پہنچانے میں کامیاب رہا۔
پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روشن حقیقت کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی دور میں ملکی معشیت مضبوط ہوئی ہے ملک ترقی کی طرف گامزن ہوا اور عوام کو باقائدہ ریلیف ملا تو وہ دو ر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا دور ہے یہ دور پاکستان کی تاریخ میں معاشی خوشحالی اور ملک میں تیز رفتار ترقی کے اعتبار سے سب سے بہترین دور ثابت ہوا اسی دور میں پاکستان کی معاشی گروتھ (GDP ) آٹھ اشاریہ تک جا پہنچی تھی جو پاکستان کی معاشی خوشحالی اور ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسکا کریڈٹ جنرل پرویز مشرف کو جاتا ہے۔جبکہ آج کے موجودہ نااہل حکمرانوں نے ملکی معشیت کا بیڑا غرق کررکھا ہے معاشی گروتھ جو مشرف صاحب کے دور میں آٹھ اشاریہ سے تجاوز کر گئی تھی اب اس سطح تک گر چکی ہے کہ اسے سنبھالادینا مشکل ہوگیا ہے۔
Pervez Musharraf
مشرف صاحب کی پالیسیوں سے کسی کو لاکھ اعتراض ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ سچے اور پکے پاکستانی ہیں ۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت ان کے عمل سے نظر آتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے ترکی کے مصطفی کمال ملائشیا کے مہاتیر محمد سے کم ثابت نہ ہوئے۔اور پاکستان کی معاشی ترقی اور عالمی سطح پر پاکستان کے وجود کو منوانے میں کامیاب رہے یہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنھوںنے پاکستان میں جمہوریت کے لئے عملی طور پر قابل ِقدر اقدامات کرتے ہوئے جمہوریت کو بنیادی طور پر مضبوط کرنے کے لیے لوکل گورنمنٹ سسٹم (بلدیاتی نظام ) متعارف کرایا جس کے زریعے اختیارات کو نچلی سطح تک لے جاکر غریب عوام کو با اختیار بنایا جس سے پاکستان کی غریب مشکلوںمیں گھِری عوام کے مسائل انکے دروازے پر حل ہونے لگے۔
اسی نظام کے تحت جانے کتنے ہی عوامی نمائندے لیڈر شپ کی صورت میں غریب اور متوسط طبقے سے نکل کر سامنے آئے جو جمہوریت کے فروغ کے لئے ایک خوش آئند قدم تھا جو آج کے موجودہ نام نہاد جمہوری سیاست دانوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور جلد سے جلد اس نظام کولپیٹ دیا گیا تاکہ اس نظام کے تحت آنے والے یہ عوامی نمائندے ان جمہوری آمروں کی برسوں سے چلتی ہوئی بادشاہت ختم نہ کردیں۔اس کے علاوہ جہاں مشرف صاحب نے ملکی سلامتی و بقاء کے لئے کئی ممکن اقدامات کئے ان میں ایک ممبرز آف قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے گریجویشن کی شرط لازمی قرار دینا بھی تھا تاکہ نا اہل کرپٹ سیاست دانوں سے اس ملک کو چھٹکارہ مل سکے اور پڑھی لکھی اعلی نوجوان قیادت ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں تاکہ پاکستان سہی سمت کی طرف گامزن ہوسکے۔
یہ عمل بھی ان نام نہاد جمہوریت پسندوںکے لیے زہرِقاتل ثابت ہوااور جیسے ہی یہ مفاد پرست ٹولہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوا اپنے اور اپنے ہمنوائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس شرط کو ختم کرکے نااہل لوگوں کو ایک بارپھر سے پارلے منٹ کا حصہ بنادیا گیا ۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی نہیں تو اور کیاہے ایک چپڑاسی کی اسامی کے لیے میٹرک ہونا لازمی ہے ایک کلرک کے لئے گریجویٹ ہونا شرط ہے لیکن اس ملک کے وزیر کے لئے تعلیم کی کوئی قید نہیں جسکے ہاتھ میں ملک کی تقدیر سونپی گئی اسے تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں اسے تو صرف ملک لوٹنا ہے جو اسے خوب اچھی طرح آتا ہے۔
pakistan
پاکستان کی عوام کو ایسے نام نہاد سیاست دانو ں جمہوری آمروں سے چھٹکارہ پانا ہوگا ملک میں ایسے لوگوں کا ساتھ دینا ہوگا ایسی جماعتوں کا ساتھ دینا ہوگا جو ملک میں تبدیلی لاکر حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم کرسکیں پاکستان میں حقیقی جمہوریت پسند جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ جمہوریت کے فروغ کے لئے مشرف جیسے لوگوں کا ساتھ دیں اور پاکستان کی 18 کروڑ عوام کے ساتھ ملکر ان جمہوری آمروں سے ملک کو نجات دلائیں۔ تحریر : عمران احمد راجپوت