”بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد خود سر افسرشاہی نے رشوت ، سفارش اور عہدوں کی بندر بانٹ میں ریکارڈ قائم کئے، جو آج تک جاری ہیں۔گذشتہ نصف صدی میں ہماری متحد حکومتوں نے کشکول گدائی پکڑا،قوم کے نام پر غیروں کے دروازے پر دستک دی اور خیرات سمیٹ کر عیاشیاں کرتے رہے۔ لیکن اس موجودہ عوامی حکومت نے تو تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے۔میڈیا اور مختلف سرویز سے پتہ چلتا ہے کہ مشرف دور،جسے غیر جمہوری کہتے ہیں،میں بیروزگاری،کرپشن،قرضوں کی سطح،عوام کی حالت اور مہنگائی موجودہ نام نہاد جمہوری دور سے ٩٠فیصدبہتر تھی۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے موجودہ حکمرانوں نے عوامی خدمت کے نعرے لگا لگا کر پورا ماحول سر پر اٹھایا ہوا تھا، مگر آج چار سال بعد بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکے، جس کو قوم کی خدمت کہا جا سکے مگر اپنے حواریوںکوسیاسی رشوت سے نواز کر قومی خدمت کانام دینا الگ بات ہے۔ہاں اس تھوڑے عرصہ میں پاکستان کے حصے آنے والی بد بختیاں اور محرومیاں اتنی زیادہ ہیں،جن کی مثال گذشتہ چونسٹھ سال میں واقعتاََنہیں ملتی۔ملکی قرضوں میں دُگنا اضافہ یعنی ساٹھ سالہ تاریخ میں اتنا قرضہ نہیں لیا گیا جتنا اس حکومت نے دو سال میں لیا ہے مگر خدا جانے وہ پیسہ گیا کہاں؟’غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں اور بھوک سے مرنے والوںکی تعداد میںبے پناہ اضافہ ہوا ہے۔انٹرنیشنل ٹرانسپیرینسی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نام کرپٹ ترین ممالک میں سر فہرست ہے۔ پاکستان کے چنداہم اداروںکے متعلقہ شعبوں میں سولہ سو ارب روپے کی کرپشن کی گئی اور پیسہ باہر کے ممالک میں منتقل کر دیا گیا۔
آج عالمی برادری میں جوہری قوت ہونے کے باوجود دطن عزیز اگر بد عنوان ترین ریاستوں میں شرمندگی سے سر جھکائے نظر آتا ہے تو یہ سارا کچھ یہاں کے موقع پرست سیاستدانوں،اقتدار پرست فوجی حکمرانوں اور ہوس پرست افسر شاہی کا کیا دھرا ہے۔ملک دشمن این آر او معاہدے کے ذریعے١٦٥ارب روپے کی کرپشن معاف کی گئی اور اس وقت آدھی سے زیادہ کابینہNRO یعنی کرپشن زدہ ہے۔جس ملک کے کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے ہوں،درجنوں باشندے ہر روز بھوک کی وجہ سے خود کشیاں کرنے اور بچے بیچنے پر مجبور ہوں، اس ملک کے صدر سمیت اکثر نامور حکومتی واپوزیشن سیاستدانوں کے نام دنیا کے پیشتر ممالک میں اربوں کھربوں کا سرمایہ ہے۔وہ دنیا کے چند بڑے سر مایہ داروں میں شمار ہوتے ہیں۔ملکی حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ، جس طرح زندگی روز بروز دشوار تر ہو رہی ہے اور مراعات یافتہ طبقہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے وہ کسی تباہی اور افراتفری کا پیش خیمہ محسوس ہو رہا ہے۔اس کی یہ حالت باہر سے مسلط کسی ظلم کی وجہ سے نہیںبلکہ اپنی مرضی اور اکثریتی فیصلے سے منتخب کئے گئے سیاستدانوں کے ہاتھوںخراب ہو رہی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب کب تک یہ تماشہ دیکھتے رہیں گے کب تک یہ لٹیرے چہرے بدل بدل کراس قوم کو لوٹتے رہیں گے اس قوم پر مہنگائی،قحط ، ظلم و نا انصافی کے پہاڑ کب تک گرتے رہیں گے یہ جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں سے کب تک بہلتی رہے گی اس کا پیمانہ ء صبرآخر کب لبریز ہو گا؟ ہم کب تک بھیک اور خیرات پر زندہ رہیں گے اس قوم کو سستا انصاف ،عزت کی روٹی اور غیرت سے جینا کب میسر ہو گا؟یہ حالات کب اور کیسے تبدیل ہوں گے؟اس کا حتمی اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا لیکن یہ قوم اس وقت تک کرپشن کے کیچڑ میں لت پت رہے گی جب تک اس میں خود اپنے حالات بدلنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ قرآنی فیصلہ اور قدرت کا قانون ہے کہ قومیں اس وقت تک نہیں سنورتیں جب تک وہ خود سنورنے کا پختہ عزم نہ کر لیں۔ ہمارے تمام سوالوں کا جواب قرآن میں موجود ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا