جو لوگ عید میلادالنبی منانے کے لیے اس کے حق میں جو دلیل اور تاویلات پیش کرتے ہیں مجھے نا ان سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی ان لوگوں سے کوئی ہمدردی ہے جو اسے بدعت سمجھتے ہوئے اس سے احتیاط برتنے کی کوشش کرتے ہیں…میرے نزدیک دونوں گروہ اپنی جگہ صحیح ہوںگے… اس سے پہلے کہ آپ کشمکش میں پڑ جائے، کہ آج اعظم صاحب کیا گل کھلانے والے ہیں، میں صاف اور سیدھی طرح چند چیزیں آپ کے گوش گزار کرتا چلوں… میں اس معاملے میں کسی علمی بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتا بلکہ جو چیز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور محسوس کی ہے…اسے آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں… کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے… خود میں نے کچھ عرصہ بریلوی مکتب فکر کے مدرسے ”دارالعلوم امجدیہ” سے تعلیم حاصل کی ہے۔
قطع نظر اس کے کہ عید میلادالنبی جائز ہے یا ناجائز…میں کراچی کے مختلف علاقوں میں گھومتا ہوا لیاقت آباد جا پہنچا،
کی ہر گلی برقی قمقموں سے سجائی گئی تھی… سات رنگ کی لائٹوں کا حسین امتزاج آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ مختلف رنگوں کی جھنڈیوں کی مدد سے گلی کے در ودیوار کو مزّین کیا گیا تھا۔ جب کہ کچھ گلیوں میں کبوتر اور مور بھی لا کر رکھے گئے تھے۔ یقین کریں اتنا اہتمام میں نے مسلمانوں کے کسی اور تہوار میں نہیں دیکھا۔
حا لانکہ دیکھا جائے تو چھوٹی اور بڑی عید کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس دن کو مشترکہ خوشی کے دن کے طور پر منا کر مختلف فرقوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بات اگر گلی محلے اور مسجد کو سجانے کے حوالے سے ہوتی تو ٹھیک تھی، مگر میں نے ان گلیوں میں مردوں سے زیادہ عورتوں کو دیکھا جو عید کے دن کی طرح نئے کپڑے زیب تن کیے ہوئی تھیں۔
ان کا بنائو سنگھار آسمان کو چھو رہا تھا… بات یہاں تک بھی ہوتی تو ٹھیک تھی… مگر ان کا بنائو سنگھار سب مردوں کی دلچسپی کا سامان پیدا کر رہا تھا… میں نے کسی عورت یا لڑکی کو نقاب میں نہیں دیکھا… سوائے دو، تین کے مجھے گمان گزرا کہ شاید آج عید میلادالنبی کے علاوہ کوئی اور بھی خاص دن ہوگا… لیکن ایسا کوئی مذاق نہیں تھا… یہ سب لوگ عید میلادالنبی کے لیے ہی سج سنور کر حضور ۖ کی تعلیمات کا بڑی ڈھٹائی سے مذاق اڑا رہی تھیں۔
Rabi ul Awal Calebrate
بات یہاں تک ہوتی تو بھی ٹھیک تھی، کیوں کہ لوگوں نے اس حوالے سے مجھے دس ہزار تاویلیں دے کر چپ کرا دینا تھا… لیکن جب میں نے چند نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اٹھکھیلیاں دیکھیں… لڑکوں کو لڑکیوں کے پیچھے کسی بھنورے کی طرح لپکتے دیکھا تو میرا خون کھول اٹھا۔ لیکن صورتحال کچھ ایسی تھی کہ میں چاہتے ہوئے بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں تھا اور اس وقت صرف مشاہدہ کر کے اپنا خون جلا سکتا تھا… میرے ایک دوست ”شعیب ” کو اس کے کولیگ نے مشورہ دیا کہ عید میلادالنبی کی رات ہماری طرف منانا، خوبصورت لڑکیوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے… اور یہ بات کہتے ہوئے اسے ذرا برابر شرم محسوس نہیں ہوئی اور شاید وہ عید میلادالنبی کو ”ویلنٹائن ڈے” سمجھ بیٹھا تھا۔
قارئین…! یہ بات تو میں بتانا بھول گیاکہ بجلی کے مصنوعی بحران کا شکار ملک ”عاشقان رسول ” کی چوری کی بجلی سے سجائی گئی گلیاں ، عمارات اور مساجد اس وقت صاف بتارہی تھی کہ اس ملک میں بجلی کا کوئی حقیقی بحران نہیں ہے ورنہ اتنی بڑی تعداد میں بجلی کی چوری سے کم از کم بن قاسم کے بجلی پلانٹ کو تو ٹرپ کر جانا چاہیے تھا۔ ملیر کی ایک گلی کے متعلق پتا چلا کہ صرف ایک گلی نے 60 ہزار روپے خرچ کر کے گلی کو سجایا ہے… اس گلی میں عاشقان رسول نے مور اور کبوتروں کو بھی انتظام کیا تھا۔
تاکہ یہ گلی دیگر گلیوں سے منفرد نظر آئے۔ پاکستان کے کئی شہروں میں اس دن کی مناسبت سے کئی سو پونڈ کے کیک بنا کر کاٹے گئے، اور بہت ساری جگہوں پر آتش بازی کر کے بھی عشق رسول کا اظہار کیا گیا۔ اگر کچھ عرصہ سب لوگ یوں ہی چپ بیٹھے رہے اور علمائے کرام (خصوصاً بریلوی علمائے کرام) نے اس افراط اور تفریط کی طرف توجہ نہیں دی تو یہ صورتحال انتہائی خوفناک حالات سے دو چار ہوگی۔ شاید لوگ اگلے سال …… کو نچوانا بھی شروع کر دے… اور یہ کہہ دیں کہ خوشی کے موقع پر رقص تو ہونا چاہیے۔ ایقاظ کے ابو زید نے خوب لکھا۔
”حقیقت یہ ہے کہ میلاد النبی منانے کے سلسلے میں جتنے بھی دلائل دئے جاتے ہیں وہ اس طرح کے دلائل ہیں جن کو امت کی تاریخ میں کبھی دلیل سمجھا ہی نہیں گیا۔ یہ عید دلائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک شوق اور جذبے کی بنیاد پر شروع کی گئی ہے اور پھربقدر ضرورت دلائل بھی پیدا کئے گئے۔ کیا حقیقت سمجھنے والوں کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ نہ نبی، نہ صحابہ ، نہ تابعین اور نہ تبع تابعین کسی نے بھی ان مواقع کے باوجود اس چیز کو عشق رسول کا تقاضا نہیں جانا۔
کیا امت مسلمہ کا اصول نہیں ہے کہ پہلی تین نسلوں میں جو دین کی تشریح ہوچکی اس کی حیثیت معیاری ہے؟ تو اب کیا ان کے دلوں کے اندر عشق رسول کا پودا اتنا تناور ہو چکا ہے کہ صحابہ اور خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کی رسول سے محبت بھی مات کھانے لگی ہے۔ کیا امت کا اجتماعی ضمیر اس چیز کو سچ مچ عشق رسول سمجھ سکتا ہے۔ اچھی طرح یاد رکھیں کہ حد سے زیادہ گورا رنگ خوبصورتی نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جسے ”برص ”کہتے ہیں۔
Valentine’S Day
مجھے عید میلادالنبی منانے والوں سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ وہ مبالغہ کی انتہا نہ کریں… لوگ پہلے بھی عید میلادالنبی کا پروگرام کرتے تھے مگر اس میں خرافات نہیں ہوتی تھی… لیکن اب میڈیا کے ذریعے عید میلاالنبی کے پروگرام کو ”ویلنٹائن ڈے” کے پروگرام میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان میں فرقہ بندی اپنے عروج پر ہے اور اس دن میں خوشی سے زیادہ دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کو نیچا دکھانے بلکہ درحقیقت چڑانے کی غرض سے اس دن زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
سڑکوں پر لگے ہوئے ”الصلوة والسلام ”والے درود شریف سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس درود میں لفظ”یا” کے حوالے سے دیگر فرقوں کی جانب سے تحفظات ہیں… اگر امت مسلمہ کی وحدت کی بات ہوتی تو اس درود کی جگہ دوسرا درود پینا فلیکس، دیواروں اور چوراوہوں پر آویزاں کیا جاتا… لیکن درحقیقت دوسرے فرقوں والوں کی ”ہٹانی” بھی تو ہے اس لیے جان بوجھ کر یہ درود لکھ کر امت مسلمہ کی وحدت کو پارا پارا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
میں نے اب تک بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں کو میلادالنبی کی آڑ میں ہونے والی خرافات پر پریشان ہوتا نہیں دیکھا… جن لوگوں سے بات کی جائے وہ آگے سے لڑ پڑتے ہیں… اور بات سننے تک کے روادار نہیں ہوتے… اگر یہ باتیں مجھے کسی نے بتائی ہوتی تو اس میں شک کرنے کی گنجائش بہرحال موجود ہوتی… لیکن کیا کروں یہ سب چیزیں میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھی اور محسو س کی ہے… اور یہ حقیقت ہے… یاد رکھیے! سو باتوں کے لیے ایک دلیل ہوتی ہے، جبکہ سو دلائل کے آگے ایک حقیقت کافی ہوتی ہے۔