مسلم خواتین کے پردے کو مغرب میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ماڈرن ازم کی دوڑ میں شامل کچھ مسلمان بھی نقاب اور حجاب کو دقیانوسیت قرار دتے ہیں حالانکہ بہت سے مغربی مفکرین مسلم خواتین کے اس حق کی حمایت کر رہے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوبامہ نے قاہرہ یونیورسٹی میں خطاب کے دوران فرانس میں برقعے پر پابندی کے قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کو مسلمانوں کے مذہبی احکامات کی پیروی کرنے پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
بعد میں فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے مسلم خواتین کو حجاب سے روکنے کیلئے مختلف قسم کی پابندیاں عائد کیں۔ سرکوزی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ برقع مذہبی علامت نہیں بلکہ یہ غلامی کو ظاہر کرتا ہے، جسے فرانس میں ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔
فرانسیسی صدر کا یہ سخت بیان انتہائی افسوس ناک ہے۔ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے حجاب کی مخالفت میں بیان دینے والے نکولس سرکوزی پہلا شخص نہیں۔
2006 میں سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے بھی اس قسم کا بیان دیا تھا جس میں مسلمان خواتین کے نقاب کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔ جیک سٹرا نے نقاب کو علیحدگی اور تفریق کی علامت قرار دیا تھا۔
جیک سٹرا کے بیان کیبعد ملک میں اس موضوع پر بحث شروع ہو گئی تھی۔ ٹونی بلئیر، گورڈن براؤن اور ڈیوڈ کیمرون نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
مسلم خواتین کے نقاب کو اکثر ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تنقید کرنیوالوں کا کہنا ہے کہ یہ عورت کے کم تر درجے کی علامت ہے۔ ثقافت اور حجاب کے مخالفین اسے دقیانوسیت اور محکومی سے منسوب کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں مغربی لباس کو انفرادیت اور آزادی کی علامت قرار دیتے ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ عورت جس طرح کا لباس پہنتی ہے اور جسطرح اپنے بالوں کا اسٹائل بناتی ہے، وہ اس کے اپنی ذات کو اہمیت دینے سے تعلق رکھتا ہے۔ نقاب اور حجاب کی مخالفت کرنیوالوں میں غیر مسلموں کیساتھ ساتھ کچھ مسلمان بھی شامل ہیں۔
muslim women
نقاب اور حجاب کی صحافت کرنے والے کہتے ہیں کہ لباس کا یہ حصہ عورت کو آزادی فراہم کرتا ہے۔ وہ غیر مردوں کے سامنے اپنے جسم کی نمائش سے محفوظ رہتی ہے اور پھر خواتین کے درمیان بھی ایکدوسرے سے لباس کی بنیاد پر برتری کا مقابلہ نہیں ہوتا۔
نقاب کی بدولت عورت مرد کیلئے سیکس آبجیکٹ بھی نہیں بنتی۔
نقاب عورت کو اپنی روحانی، ذہنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے ترقی کی جانب لے جاتا ہے اور وہ آزادانہ طور پر اپنے کام پر توجہ مرکوز کرتی ہیں کیونکہ انہیں کسی قسم کا خوف یا احساس عدم تحفظ نہیں ہوتا۔
مسلم علماء کا کہنا ہے کہ عورت مذہبی احکامات کا پیروی کرتے ہوئے جدید طرز زندگی کو بھی اپنا سکتی ہے۔
جدید دور میں بہت سی نوجوان مسلم خواتین نے مغربی فیشن کو رد کرتے ہوئے اپنی مذہبی شناخت کو اپنایا ہے۔ وہ مذہبی اعتبار سے قابل قبول لباس زیب تن کر کے مغرب کے اس تاثر کو غلط ثابت کر رہی ہیں کہ نقاب عورت کی عزت میں کمی کرتا ہے۔
ان خواتین کا موقف ہے کہ مغربی فیشن میں سکون بھی کم ہے اور وقار بھی جبکہ آزادی کا نعرہ لگانے والی اکثر خواتین اپنے آپ کو سیکس آبجیکٹ بنا لیتی ہیں، جیسا کہ جدید میڈیا سے ظاہر ہوتا ہے۔
حجاب کرنیوالی مسلم خواتین نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ آخر مسلمان خواتین کے پردے کو ہی امریکہ اور مغرب میں تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے اور مسلمان خواتین کا سکارف لینا ناپسند کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ بہت سے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی اسی طرح کا لباس پہنتی ہیں۔
روسی، ہندو، مصری، یہودی خواتین اور کیتھولکئنز بھی تو سکارف لیتی ہیں تو پھر تنقید کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر ناقدین کی رائے میں دیگر مذاہب کی خواتین کا سکارف ہی مسئلہ کیوں ہے؟
muslim woman
حالانکہ مسلم خواتین کا حجاب مذہبی جذبے کیساتھ ساتھ نظم و ضبط، احترام اور آزادی کی علامت بھی ہے لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ سکارف انکے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے؟
بس تنقید کر دی جاتی ہے۔
نقاب کی مخالفت کرنیوالے یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ نقاب کی وجہ سے عورت کی صحیح پہچان نہیں ہو پاتی، اسلیے سکیورٹی کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، تاہم یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب شناخت کی نوبت آنے پر وہ خاتون پس و پیش سے کام لے۔
نقاب کو پستی کی علامت قرار دینا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ جدیدیت اور ماڈرن ازم کو صرف مغربیت سے منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ اسوقت ہماری دنیا میں کثیرالانواع جدیدیت ہے جس کے تحت معاشرے کثیرالثقافتی ڈھانچوں کو اپنا رہے ہیں۔
hijaab or naqaab
اب متعصب مغرب کو ان حقیقتوں کا اعتراف کر لینا چاہیے اور ان مسلم خواتین کی عزت کرنی چاہیے جو اپنا مذہبی حق یعنی نقاب استعمال کرتی ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر جان ایل ایسپوسیٹو ایک امریکی مصنف کے تاثرات