فلسطینی مزاحمتی تنظیم ‘حماس’ کی قید میں پانچ برس گزارنے کے بعد مغوی اسرائیلی فوجی گیرالڈ شالت واپس اسرائیل پہنچ گیا ہے جبکہ فوجی کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے اپنے گھروں کو واپس پہنچنے پر فلسطینی علاقوں میں جشن کا سا سماں ہے۔حماس نے شالت کو منگل کی صبح مصری حکام کے حوالے کردیا تھا جہاں سے اسے ایک اسرائیلی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہلے وسطی اسرائیل کے ایک فوجی مرکز اور بعد ازاں آبائی قصبہ ‘مضفہ حیلہ’ پہنچایا گیا جہاں ہاتھوں میں اسرائیلی پرچم اٹھائے ہزاروں افراد نے اس کا استقبال کیا۔ فوجی مرکز پر پہنچنے پراسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے شالت کا خیر مقدم کیا جو پانچ برس طویل قید سے رہائی پانے کے بعد خاصا کمزور دکھائی دے رہا تھا جبکہ اس کی رنگت بھی زرد پڑی ہوئی تھی۔اس موقع پر اسرائیلی وزیرِاعظم نے خبردار کیا کہ اگر شالت کے بدلے رہا کیا گیا کوئی بھی فلسطینی شہری دوبارہ دہشت گردی کی جانب پلٹا تو اس سے اس کا حساب لیا جائے گا۔واضح رہے کہ شالت کے بدلے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں میں سے کئی اسرائیلی جیلوں میں دہشت گرد حملوں کے الزامات کے تحت عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔رہائی پانے والے فوجی اہلکار کے والد نوم کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا اپنے گھر واپس پہنچنے پر بہت خوش ہے تاہم وہ طویل قید کے باعث کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہوچکا ہے جن کے اثرات سے نکلنے کے لیے اسے طویل علاج سے گزرنا ہوگا۔ادھر اسرائیلی قید سے فلسطینیوں کی رہائی کی خوشی میں حماس کے ہزاروں حامی غزہ کی پٹی میں جشن منارہے ہیں۔ اس موقع پر ہونے والی ریلی کے ہزاروں شرکا سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے حماس کے وزیرِاعظم اسمعیل حانیہ نے فلسطینیوں کی رہائی کو “خدا کی عطا کردہ فتح” قرار دیا۔حانیہ نے اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے قیدیوں کے تبادلہ کے معاہدہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بدولت فلسطینیوں کے باہمی اتحاد کی راہ ہموار ہوئی ہے کیوں کہ ان کے بقول حماس کے مذاکرات کاروں نے مغوی اسرائیلی فوجی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے جن افراد کو رہا کرایا ہے ان کا تعلق الفتح سمیت مختلف فلسطینی دھڑوں سے ہے۔واضح رہے کہ الفتح کو حماس کا بدترین مخالف سمجھا جاتا ہے۔اس سے قبل شالت کی رہائی کے بدلے منگل کو اسرائیلی حکومت نے 300 فلسطینی قیدیوں کو غزہ منتقل کیا جہاں ان کے اہلِ خانہ اور حماس کے کارکنان نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔اسرائیلی قید سے رہائی پانیو الے 100 دیگر فلسطینی باشندوں کو مغربی کنارے کے شہر راملہ پہنچایا گیا جہاں ا ن کے استقبال کی تقریب میں ہزاروں فلسطینی باشندوں نے شرکت کی۔اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی حماس کے اراکین کے ہمراہ اسٹیج پر موجود تھے جنہوں نے رہائی پانیو الے افراد کو آزاد فلسطینی ریاست کے حصول اور اسرائیلی قبضہ کے خاتمے کی جدوجہد کا ‘ہیرو’ قرار دیا۔شالت کے بدلے رہائی پانے والے 40 دیگر فلسطینی قیدیوں کو ترکی، شام اور قطر روانہ کیا جارہا ہے جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گزاریں گے۔ ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان 10 قیدیوں کو لینے کے لیے ایک طیارہ قاہرہ بھیج رہا ہے جنہیں معاہدے کے تحت ترکی میں قیام کرنا ہوگا۔اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا یہ معاہدہ مصر کی کوششوں سے طے پایا ہے جس کے تحت گیلاد شالت کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں موجود کل 1027 فلسطینی قیدیوں کو دو مرحلوں میں رہا کیا جائے گا۔منگل کو حماس کے حکام نے مغوی شالت کو جزیرہ نما سنائے کے مقام پر مصری حکام کے حوالے کیا جس کے بعد اسرائیل کی جانب سے 477 فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا گیا۔معاہدے کے دوسرے مرحلے میں اسرائیل باقی ماندہ 550 فلسطینی قیدیوں کوآئندہ دو ماہ کے عرصے کے دوران رہا کرے گا۔یاد رہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے جون 2006 میں کیے گئے ایک سرحد پار حملے کے دوران شالت کو اغوا کرکے غزہ منتقل کردیا تھا جس کی عمر اب 25 برس ہوچکی ہے۔اپنی رہائی کے کچھ ہی لمحوں بعد حماس کے نقاب پوش مسلح جنگجووں کے نرغے میں گھرا شالت مصر کے سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رپورٹر کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے واضح طور پر بوکھلایا ہوا نظر آیا۔اس سوال کے جواب پر کہ آیا وہ مزید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی حمایت کرے گا، شالت کا کہنا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کے ساتھ لڑائی بند کردیں تو اسے ان کی رہائی پر خوشی ہوگی۔ شالت نے ٹی وی کو بتایا کہ وہ دورانِ قید اپنے خاندان اور دوستوں کو بہت یاد کیا کرتا تھا۔اسرائیلی حکام نے مصری ٹی وی کے انٹرویو پر اپنی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اعتراضات کے باوجود یہ انٹرویو لیا گیا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بھی رہائی کے فورا بعد شالت کے ٹی وی انٹرویو کو “بے حسی پر مبنی عمل” قرار دیا ہے۔