ہنے کو تو موجودہ حکومت نے مفاہمت کی پالیسی کو اپناتے ہوئے حکومت میں موجود تمام جماعتوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس قدر مفاہمتی اصولوں پر چلتے ہوئے بھی یہ مفاہمت دان ملک و قوم کی فلاح کا باعث نہ بن سکے۔ غریب عوام کے مسائل بجائے کم ہونے کے مزید بڑھتے جارہے ہیں جسے حکومتی سطح پر حل کیا جارہا ہے نہ حل کرنے کی کوشش ۔تمام سیاسی پارٹیاں ا س مفاہمتی عمل کو اپناتے ہوئے اندرونے خانہ اپنی قیمتیں بتانے لگانے اور بڑھانے میں مصروفِ عمل ہیں جسے ہمارے محترم صدر صاحب بڑی عمد گی کے ساتھ سب کی حیثیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے ان کی جھولیوں میں مفاہمتی عمل سے بنی ریوڑیاںڈال دیتے ہیں جسے یہ مفاہمتی پارٹیا ں اپنی حیثیت اور اپنا نصیب سمجھ کر سائیڈ لائن لگ جاتی ہیں اور بے چاری غریب عوام کو کھڈے لائن لگا دیتی ہیں ۔
قارئین ذرا سوچیں ان مفاہمت دانوں نے پچھلے ساڑھے چار سالوں سے مفاہمت کے اصولوں پر چلتے ہوئے ملک و قوم کو کیا دیا ۔۔؟ یہ مفاہمت دان سوائے اپنے مفادات کو دوام بخشنے کے اور کچھ نہ کرسکے۔یہی مفاہمت دان اپنے مفاد کے لئے راتوں رات آئین میں ترمیم کے بل پر،چیف الیکشن کمیشن کی تقرر ی پر ، نئے وزیراعظم سے لیکر آنے والے نئے وزیرِاعظم تک کے مسئلے پر صرف ایک ہنگامی اجلاس بلاکراتفاق تو کر لیتے ہیں ۔لیکن جب عوامی مفادات کی بات آتی ہے توان ہی مفاہمت دانوں کے پاس عوامی مفاد کے لئے کوئی مفاہمتی پالیسی ہوتی ہے نہ اتفاق نام کا کوئی لفظ۔ صرف سندھ پہ نظرڈالیں پچھلے ڈھائی سال سے تعطل کا شکارعوامی مفاد کا بل لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو جان بوجھ کر طول دیا جارہاہے ڈھائی سالوں سے صرف اجلاسوں کی حد تک ہی پیش رفت ممکن ہوسکی ہے۔
MQM
اجلاسوں میں پیش رفت پر سست روی کا یہ عالم ہے کہ جسے دیکھ کر کچھوا بھی اپنی رفتار پر فخر محسوس کر تا ہوگا۔پاکستان کی حق پرست سیاسی جماعت ایم کیو ایم جو بلدیاتی اداروں کی واحد نمائندہ اورحامی جماعت ہے جو اِن مفاہمت دانوں کی مفاہمتی چکی میں ساڑھے چار سالوں سے پستی چلی آرہی ہے اسے روز روز اجلاسوں کا لولی پاپ کھلا کر ڈھائی سالوں سے ٹرخایا جارہا ہے ۔موجودہ بلدیاتی سیٹ اپ چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے اداروں کا کوئی پر سان حال نہیں سندھ کے تمام بلدیاتی ادارے مالی بحران سے دورچار ہیں بلدیاتی ملازمین کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محروم بھوکے مر رہے ہیںلیکن انکی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہر علاقہ کچرے کا ڈھیر معلوم دیتا ہے صفائی ستھرائی کا کوئی بندوبست نہیں ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔
قارئین اسی بات کو لیکر اگر ہم تھوڑا ماضی میں جھانکے زیادہ نہیں صرف پانچ سال پہلے تو ہمیں سندھ دھرتی کا وہ عظیم بیٹا یاد آئے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں مصطفی کمال کی صورت میں عطا فرمایا جس نے اپنی قابلیت اور اپنے عظیم قائد کے فلسفے پر چلتے ہوئے عوام کوخدمتِ انسانی کی اصل روح سے ر وشناس کرایاجس نے مختصر اختیارات کے ساتھ مختصر عرصے میں پاکستان کے معاشی حب شہر کراچی کی تقدیر بدل دی اِس عظیم نوجوان نے اپنے دورِنظامت میں کراچی شہر کو عملی طور پر امن کا گہوارہ بنایا ہوا تھا جہاں لوگ امن و سکون سے رہتے تھے نہ کوئی بھتہ مافیا تھا نہ ٹارگٹ کلر اس طرح شہر میںدندناتے پھر تے تھے نہ کسی کے حقوق غصب ہوتے تھے نہ کسی تقسیم کی بات ہوتی تھی اگراس نظام کو تواتر کے ساتھ چلنے دیا جاتا تو آج پاکستان میں کافی حد تک سیاسی ، جمہوری ومعاشی استحکام ہوتا اور آج ہم ناکام جمہوریت کا رونا نہ رورہے ہوتے لیکن ہمارے سیاست دانوں کو کبھی جمہوریت سے دلچسپی رہی نہیں وہ تو بس اقتدار کی بھوک انہیں بے چین کر کے میدانِ سیاست میں اتر جانے پر مجبور کردیتی ہے۔
Asif ali zardari
تاریخ گواہ ہے جمہوریت کے نام لیوا ان سیاستدانوں نے اپنے کسی حکومتی ادوار میں ایک بار بھی اس جمہوری عمل کو اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ہمیشہ آمروں کا رونا رونے والے آئین کی خلاف ورزی پرغداری کے فتوے دینے والے خود ہر بار اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے آئین کی 42 سالوں سے نافرمانی کرتے آرہے ہیں اس کا تقدس خود اپنے قدموں تلے روندتے آرہے ہیںجسکا جواب ا نہیں ایک دن دینا ہوگا۔ دنیا میں رہنے والے تمام انسان ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتے اور سوچتے ہیں تعمیری سوچ کا جذبہ ہر انسان اپنانا چاہتا ہے لیکن ہمارے حکمرانو ں نے اس قوم کو پیچھے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے لوگ آج کو دیکھ کر کل کو یاد کر تے ہیں ۔ اس حکومت کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی ۔ان حالات کے پیش ِ نظر مفاہمت دانوں سے گذارش ہے کہ خدارا اس ملک پر رحم کرتے ہوئے ذاتی مفاد سے بالاتر اصولی سیاست کے ساتھ عوامی پالیسی کو اپناتے ہوئے مفاہمتی پالیسی بنائیں عوام کے حقوق کا خیال رکھیں خدمتِ انسانی کاجذبہ اپنے اندربیدار کریںیہی مفاہمتی اصولوں کا تقاضہ ہے آپکی ذمداری بھی اور فرض بھی ۔تحریر: عمران احمد راجپوت