تحریر: حفیظ خٹک مارچ 1994 میں پہلی شادی ہوئی، یہ 2016 ہے اس لحاظ سے میری شادی کو پورے 22 برس ہو گئے ہیں اطمینان و سکون اور خوشی کے ساتھ یہ عرصہ گذرا جس پر مجھ سمیت میری شریک حیات اللہ کے شکر گذار ہیں۔ اب تک ہم بے اولاد ہیں ۔ اپنی ذات سمیت بیگم کا بھی اولاد کے حصول کیلئے علاج معالجہ کرایا تاہم اب تک ہمارے ہاں اولاد نہیں ہوئی ۔ ڈاکٹرز نے جو ٹیسٹ کرائے ، نتائج دیکھنے کے بعد یہ واضح کر دیا کہ میری شریک حیات میں کچھ بیماری و کمزوری کے سبب ماں بننے کی صلاحیت نہیں۔ 2000 میں ہم دونوں نے ایک عزیز کی بیٹی کو گود لیا اور آج تک اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھا ہوا ہے۔ تاہم مجھ سمیت میری بیگم میں اپنی اولاد کی ایک ایسی خواہش ہے کہ جس کیلئے اب تک علاج کرتے ہیں اور اس کے ساتھ بیگم کے اصرار و میری رضامندی پر اولاد کیلئے دوسری شادی کا سوچتے رہے۔ لے پالک بیٹی کو ہم نے ماں باپ کا مکمل پیار دے رکھا ہے۔ وہ بیٹی بیگم کی جان کی طرح آج میری بھی جان ہے۔
یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ سمیت 3 بھائی اور 7 بہنیں ہیں جو کہ سبھی اپنے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ ان سب کی بھی یہ خواہش ہے کہ میں اولاد کیلئے دوسری شادی کروں۔ اس خواہش کی تکمیل کیلئے سب نے کوشش کی۔میری ایک چھوٹی بہن شہر قائد کے ایک گنجان آباد علاقے میں شوہر وتین بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک نندشگفتہ جن کی عمر 30 برس ہے ان سے میرے رشتے کیلئے اپنے خاوند سے بات کی۔ خاوند کے ساتھ دینے پر انہوں نے ساس سے بات کی اور اس طرح تین برس تک یہ معاملہ چلتا رہا۔بہن کی ساس اور ان کے دیگر بیٹے و بیٹیاں اس عرصے میں مجھ سے معاشی فوائد حاصل کرتے رہے۔ میری دوسری شادی کی بات ایک طرح سے شگفتہ سے طے ہوگئی تھی۔
Second Marriage
لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ وہ لوگ میرا اور دوسری ہونے والی بیوی کا اتنا وقت کیوں کر ضائع کر رہے ہیں۔ بالاآخر شگفتہ کے ساتھ میں نے باہمی رضامندی سے عدالت جاکر نکاح کرلیا ۔ اس کے بعد جب میری اجازت سے اس نے اپنی ماں سے میرے گھر منتقل ہونے کی بات کی تو اس کی ماں نے دیگر بیٹوں کو بتا دیا جس کے بعد ان سب کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے میری دوسری بیگم شگفتہ پر ظلم شروع کردیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر جب میں اسے لینے کیلئے ان کے گھر گیا تو میرے ہمراہ میرے بھائی اور بہنوئی سب مل کر ان کے گھر گئے ۔وہاں سب کے سامنے جب شگفتہ سے رضامندی کے ساتھ عدالت میں نکاح کا پوچھا گیا تو اس نے حامی بھری۔ بڑے بزرگوں نے جب ان سے یہ پوچھا کہ کیا اب آپ ان کے ساتھ جانا چاہتی ہیں اور بقیہ زندگی ان کے گھر میں ان کے ساتھ گذارنا چاہتی ہیں تو شگفتہ نے اپنی والدہ اور تمام بھائیوں کی جانب دیکھتے ہوئے جواب میں نہیں کہا۔
اس وقت وہ نہیں، میرے زندگی کیلئے ایک سانحے سے کم نہ تھا اور اس سانحے کے اثرات ابھی تک برقرار ہیں اور نجانے کب تک یہ اثرات برقرار رہیں گے ؟اس کے نہیں کہنے کے بعد سب وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ، اولاد کیلئے میرا یہ عمل رد ہوا ۔ میری خواہش اولاد کیلئے یہ اقدام ادھورا رہ گیا ۔وہاں سے میرے ساتھ گئے ہوئے میرے پیارے سب مایوس ہوکر چلے گئے۔ دو روز شگفتہ کے بھائیوں و بزرگوں نے یہ پیغام بھجوایا کہ عدالت آکر طلاق دیدی جائے تاکہ یہ معاملہ باقاعدہ ختم ہوجائے۔ عدالت گیا وہاں شگفتہ بھی آئی ہوئی تھی اس نے جج کے سامنے کاغذات پر دستخط روتے ہوئے کئے۔جب کہ ان کے ساتھ آنے والے اس کام میں اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے رخصت ہوگئے۔
میرا سوال آج مفتی اعظم پاکستان سے یہ ہے کہ میں نے کورٹ میں کاغذات پر دستخط صرف اپنی بہن جس کے تین بچے ہیں اس کی خاطر کئے۔ اس کا گھر بچانے کیلئے کئے۔اس ہنستے بستے گھر کو بچانے کیلئے کمرہ عدالت میں ناچاہتے ہوئے بھی دستخط کئے۔ مفتی صاحب یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ میری اس بہن کے شوہر نے بہن پر شدید دباؤ ڈالااور اسے مجھ سے ، دیگر بہن بھائیوں سے رابطوں پر سخت پابندی عائد کی ۔ یہاں تک اسے کہا کہ اگر میں شگفتہ سے علیحدگی کے کاغذات پر دستخط نہ کئے تو وہ میری بہن تک کو چھوڑ دے گا۔ اس بہن کی خاطر دل و دماغ پر پتھر رکھ کر میں نے بھار ی ہاتھوں کے ساتھ دستخط کئے۔ مفتی صاحب ایسا کرنے کے بعد بھی میرا دل و دماغ اس فیصلے پر قائل نہیں اب تک نہیں ہواہے۔ نکاح کے بعد رخصت ہوئے بغیر شگفتہ دس روز تک میری رہی لیکن جو حالات میں نے بیان کئے کیا وہ اب بھی میری ہے یا نہیں؟ میں نے طلاق کے الفاظ اپنے منہ سے ادا نہیں کئے اور نہ ہی کر سکتا ہوں ۔ دستخط بہن اور اس کے بچو ں کی زندگی کیلئے کئے ۔ مفتی صاحب مجھے بتائیے کہ ایسی صورتحال میں شگفتہ کیا اب بھی میری ہیں یا نہیں؟اور یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ اس دستخط کے بعد کسی اور سے نکاح کر سکتی ہیں یا نہیں ؟۔
Divorce
مفتی صاحب ہمارے دین میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔ میرے اس معاملے پر ہمارے دین میں ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ میں پھر یہ بات کہتا ہوں کہ شگفتہ کو دل و دماغ سے اور زبان تک سے میں نے طلاق نہیں دی ، دستخط جس کیفیت میں اور جس تناظر میں کئے وہ آپ کے سامنے رکھ دئے ہیں۔ ازراہ کرم اس صورتحال میں اسلام کی روشنی میں میرے لئے اور میری اس منکوحہ کیلئے احکامات واضح کر دیں۔ اسلا م کے تخت میری رہنمائی کردیں۔ مفتی صاحب ، ایک اور مفتی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ نکاح دوبارہ واجب ہوگیا ہے۔ میرا دل ان کی اس بات کو نہ مانا اور تاحال ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مجھے بتائیں کہ کیا شگفتہ اب میری منکوحہ نہیں رہیں؟مجھے وکلابتائیں ، انسانی حقوق کی تنظیمیں بتائیں ۔ ہمارے ملک میں جو قانون ہے اس کی روشنی میں بتائیں۔
میں سوال پوچھتا ہوں کہ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟کیا کسی کا گھر جبرا اس انداز میں اجاڑا جاسکتا ہے؟کیا کسی کی خواہش کو اور وہ بھی جائز خواہش کو اتنی آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے؟ مفتی صاحب کیا ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے ؟ کیا اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان اور اس کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے ؟مفتی اعظم صاحب آپ بتائیں ، اس معاملے کو غور سے دیکھیں ، اسے جانچیں اور فیصلہ کریں ۔ہمارے ملک کی اتنی بڑی آبادی ہے اس بڑی آبادی میں یہ معاملہ بہت سوں کے ساتھ پیش آیا ہوگا اور آبھی سکتا ہے ۔ اس مد میں انہیں کیا کرنا چاہئے؟ انہیں کیا عمل اور رد عمل اختیار کرنا چاہئے؟ مفتی صاحب یہ معاملہ ایک فقہ کا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی میں کسی ایک فقے کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سے فیصلے کی توقع رکھتا ہوں ۔ مجھے آپ اسلام کی روشنی میں دیکھ کے جواب دیں بس۔۔۔۔
Decision
برسوں کے پرانے دوست نے اتنی ڈھیر ساری باتیں کرکے بلاآخر خاموشی نم آنکھوں کے ساتھ اختیار کرلی ۔ تاہم اس محفل میں موجود دیگر کئی افراد جواب دینے کے بجائے سوچوں میں گم ہوگئے۔ ایک صاحب نے پورا ماجرا لکھ کر کہ اسے اپنے کسی جاننے والے مفتی کے سامنے رکھ کر فیصلہ معلوم کرنے کیلئے سب تحریر کر لیا ۔ وہ کیا جواب دیتے ہیں یہ اب ایک الگ معاملہ ہے تاہم جو مسئلہ طاہر صاحب نے آج سامنے رکھا ہے وہ ایک اہم نوعیت کا معاملہ ہے۔ ایک لکھاری کی حیثیت سے اس پورے معاملے کو لکھ کر آج عوام کے سامنے ، مفتی اعظم کے سامنے ،دیگر مفتیاں کے سامنے صرف فیصلے کرنے کی غرض سے رکھا ہے۔ لہذا فیصلہ دیجئے اور فیصلہ کیجئے۔