ملالہ کا ملال لیکن !کچھ سوال

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

روز بروز کوئی نیا ”شوشہ” جو میڈیا کی ”ریٹنگ” بھی بڑھا دے اور قلم کاروں کو قلم گھسائی کا موقع بھی فراہم کر دے۔صاحب !بریکنگ نیوز بھی تو بنانی ہے چاہئے وہ ملالہ کی ہو یا ”داماد شریف” ۔۔۔کی ضرورت تو صرف ریٹنگ کی باقی رہ جاتی ہے۔چند دنوں سے قلم کاراسی ”ملال” میں گھلتے ہی جارہے ہیں۔یہ ”روشن خیال” دانشور ٹائپ مفکر تصویر کے سارے رخ یا تو دکھانا نہیں چاہتے ۔۔۔یا خود بیچارے دیکھ نہیں پا رہے۔تصویر کو صرف ایک رخ ،ایک زاویے سے دیکھنا کہاں کا انصاف ہے ؟14سال کی ننھی ملالہ یوسف زئی جس کو نام نہاد طالبان نے چند دن پہلے گولی ماری تھی،اس دلخراش واقعے پر کون سا ایسا دل ہو گا جو دکھی نہ ہوا ہو۔اس ،معصوم کلی پر قاتلانہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے اتنا ہی کم  ہے۔

ظالمو!نے وین میں سے اتار کر ملالہ کو نشاندہی کر کے فائرنگ کی جس سے ملالہ کی دو ساتھی طالبات بھی زخمی ہوئی ہیں۔اس وحشیانہ کاروائی کے بعد پوری قوم ایک ہو چکی تھی چاہے وہ کوئی سیاستدان ہو ،چاہے وہ کوئی سرکاری ملازم ،چاہے فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور ہوسب اس دلخراش واقعہ کی شدید مذمت کر رہے ہیں پوری قوم اس دردناک واقعہ کی کسک محسوس کر رہی ہے۔وزیراعظم راجہ پرویز اشرف،چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر ملکی سیاسی قیادت نے جہاں اس ظالمانہ اور بزدلانہ فعل کی بھرپور مذمت کی وہاں مذہبی پارٹیوں کی قیادت بھی مذمت کرتی نظر آئی لیکن اس کے باوجود کچھ صحافی دوست نا جا نے کیوں مذہبی پارٹیوں کی قیادت کے بیانات کو کیوں غلط رنگ دینا چاہتے تھے ہم لوگ مخالفت میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ ہر چیز کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔رب تعالی سے دعا ہے کہ ملالہ لندن سے جلد صحت یاب ہوکر اپنے وطن لوٹے دوبارہ سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکے لیکن !یہاں بہت سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

سوشل میڈیا اس حوالے سے بہت سے پریشان کرنے والے سوالات اٹھاتا نظر آتا ہے جس میں ملالہ کی دو تصاویر کا موازنہ کیا گیا ہے ایک تصویر جو گولی لگنے کے بعد کی تصویر ہے اور دوسری تصویر جو لندن سے ہسپتال جہاں ملالہ زیر علاج ہے وہاں سے جاری کی گئی ہے،اس تصویرمیں ملالہ کا چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے سوال کرنے والا سوال کرتا ہے گولی کا زخم اتنی جلدی کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے بالفرض گولی کا زخم ٹھیک بھی ہوجائے تو کم از کم زخم کا نشان تو باقی رہتا ہے۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ خون کی سپلائی بحال ہونے میں کچھ دن لگ جائیں گے لیکن آخری مرتبہ جاری کردہ تصویر میں ملالہ کا چہرہ بالکل صاف شفاف دکھائی دے رہا ہے چند دن پہلے خبر آتی ہے کہ گولی کے ماتھے پر لگنے کی وجہ سے دماغ کی ہڈیاں بڑی طرح متاثر ہوئی ہیںاب خبر آرہی ہے کہ ملالہ نے دوبارہ سے اپنی ڈائری لکھنی شروع کر دی ہے۔ضیاء الدین یوسف زئی کے اطمینان بھرے لہجے پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں معصوم ملالہ کی یہ تربیت کس نے کی ۔؟ملالہ کا وہ انٹرویو بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں ملالہ کہتی ہے برقعہ پہنے ہوئی عورتوں کو دیکھ کر میراخون کھول اٹھتا ہے ۔۔ملالہ کے فرضی نام گل مکئی کی ڈائری بی بی سی تک کیسے پہنچی اور ملالہ کے والد کی مغربی میڈیا تک باآسانی رسائی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

ملالہ کے والد کا وہ سکول جو غیر ملکی فنڈز سے چل رہا ہے دوسری طرف وہ ہیومن رائٹس موومنٹ بھی سوات میں چلا رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے سوالات کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو پتا چلتا کہ مغربی ممالک جو ملالہ پر حملے کے بعد غم سے مرے جا رہے ہیںلیکن!لال مسجد کی وہ ”ملا لائیں” جن کے سینوں میں قرآن پاک جیسی مقدس کتاب تھی کو خون میں نہلا دیا گیا نا تو میڈیا اس طرح چیخا تھا نا ہی امریکہ و دیگر ممالک نے کوئی ہمدردی کا مظاہرہ کیا تھا۔یہی قوتیں جو ملالہ پر حملے کی تو مذمت کرتی ہیں لیکن پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ناجانے کیوں ابھی تک ان کی نظروں سے اوجھل ہے؟؟اسلام آباد میں ایک مظاہرے میں مادر پدر آزاد NGOزدہ خواتین کا پاکستان کا مطلب کیا کہ نعروں سے منع کرنا ۔۔تصویر کے رخ تو کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں یہ کہانی آنے والے دنوں میں مزید واضح ہونے والی ہے۔

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
farrukhshahbaz03@gmail.com