ملالہ پر حملے کے بعد یقینا بیرون پاکستان یہ تاثر مزید مضبوط ہوا ہے کہ پاکستان بد امنی کا شکار ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے اور جن ریاستوں میں بد امنی اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ صدر وزراء اراکین پارلیمنٹ ‘ مذہبی علماء و مشائخ کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہیں اور قاتلوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک سکیں نہ مقتولوں کے ورثاء کو تحفظ فراہم کرسکیں تو ان ریاستوں کو ناکام نہیں تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے جبکہ افسوسناک اَمر یہ ہے کہ پاکستان اس ناکامی سے بھی آگے بڑھ چکا ہے یہاں نہ تو خواص کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی عوام کو …ایک جانب دہشت گرد بڑی آسانی سے پاکستان کے سیکوریٹی اداروں اور مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو دوسری جانب اراکین اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کے گھروںپر بم دھماکے اور خود کش حملے بھی ہمارے سیکورٹی اداروں کی فعالیت کی قلعی کھولتے دکھائی دیتے ہیں ‘ عسکریت پسند بڑی آسانی سے اسکول ‘ تعلیمی ادارے او ر صحت مراکز بند کرادیتے ہیں تو طالبان امن کیلئے جدوجہد کرنے والی معصوم طالبہ کو بڑی آسانی سے گولیوں سے بھون کر اطمینان سے گھر چلے جاتے ہیں ‘ کراچی میں ہر روز درجنوں گھروں میں ٹارگیٹ کلرز کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں تو اندرون سندھ میں متمول افراد بڑی آسانی سے تاوان کیلئے اغواء کرلئے جاتے ہیں اور ہائی وے پر چلنے والی بسوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی عام ہوجاتے ہیں۔
بھتہ خوری ‘ زمینوں پر قبضے ‘ قتل وغارت ‘ دہشت گردی ‘ لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان کا شرم سے جھکا ہوا سر اس وقت یقینا مزید جھک گیا ہوگا جب سوات کی معصوم ملالہ کو چند دہشت گرد بڑی آسانی سے فائرنگ کا نشانہ بناکر فرارہوگئے حکومت نہ تو امن کیلئے کام کرکے عالمی شہرت پانے والی اس معصوم ملالہ کو تحفظ فراہم کرسکی اور نہ قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ابتک کوئی کامیابی حاصل کرسکی ہے۔
پورے پاکستان اور بیرون پاکستان ملالہ پر بزدلانہ حملے کی مذمت اور اس کی صحتیابی کی دعاؤں کے ساتھ پاکستان کا سیکوریٹی رسک ہونا بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے اور یہ صورتحال کسی بھی طور ملک و قوم کے مستقبل کیلئے خوش آئند نہیں ہے کیونکہ بجلی و گیس بحران اور امن و امان کی صورتحال کے ساتھ سیاسی بھتہ خوری نے پہلے ہی پاکستان میں سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو سبوتاژ کیا ہوا ہے اور پیداواری عمل بتدریج کم ہونے کی وجہ سے غربت و بیروزگاری کے ساتھ مہنگائی میں بھی اندوہناک اضافہ ہورہا ہے اور ملالہ جیسے واقعات پر قوم کا بڑھتا ہوا اضطراب جبکہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بدنامی سرمایہ کاری کیلئے بچے کھچے امکانات کو بھی معدوم کردے گی اور جب ایسا ہوتا ہے تو ریاست کی ناکامی آگے بڑھ کر خانہ جنگی اور پھر آزاد تشخص سے محرومی پر منتج ہوتی ہے ! ملالہ پر حملے کے بعد جہاں پوری قوم نے یکجا و متحد ہوکر اس بزدلانہ فعل کی مذمت اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا وہیں کچھ حلقے ملالہ کے معاملے پر یکجا ہونے والی قوم کو اپنی فطرت اور اپنے آقاؤں کی منشاء کے مطابق انتشار و افتراق میں بانٹنے کیلئے روایتی حریفانہ بیانات دیتے رہے اور ملالہ حملے پر قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کی بجائے لال مسجد ‘ ڈروں حملوں اور عافیہ صدیقی کا راگ الاپ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے کی منافقانہ کوشش کرتے رہے حالانکہ وہ غلط نہیں ہیں کیونکہ لال مسجد میں جو کچھ ہو ااس کی غیر جانبدارانہ تفتیش ‘ ذمہ داران کا تعین اور انہیں کیفر کردارتک پہنچانا ملکی سلامتی اور انصاف و قانون کی پاسداری کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
ڈرون حملے پاکستان کے آزاد تشخص پر حملہ ہی نہیں بلکہ معصوم انسانی جانوں سے بلا سبب کھیلنے کا قبیح جرم بھی ہیں اس لئے ڈرون حملوں کی بندش اور ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی سے اظہار افسوس و تلافی کیلئے ان کی مالی امدادو معاونت بھی انتہائی ضروری اور عافیہ صدیقی جیسی قوم کی بہادر بیٹی کی دشمنان اسلام و پاکستان کے جبری تسلط میں اسیری ہمارے دلوں پر لگا وہ گھاؤ ہے جو آئینے میں ہمیں ہمارا وہ روپ دکھاتا ہے جسے بے غیرتی کہا جاتا ہے اس لئے عافیہ صدیقی کی رہائی اور پاکستان واپسی بھی ہمیں شرم سے جھکے ہوئے سروں اور نیچی نظروں سے نجات دلانے کیلئے انتہائی ضروری ہے مگر تما م ایشوز کو گڈ مڈ کرنے سے ایشوز کبھی حل نہیں ہوا کرتے بلکہ ایک ایک ایشوز بات ہوتی ہے اور اس کا حل نکلنے کے بعد اگلے درجے کی جانب جایا جاتا ہے مگر ملالہ ایشو پر قوم کی یکجہتی کے موقع پر دیگر ایشوز کو اٹھانا یقینا قوم کے جذبات کی مخالفت ہی کہلایا جاسکتا ہے اور مخالفت ہمیشہ انتشار کا باعث بنتی ہے اسلئے ہماری گزارش ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اسلام کی سربلندی ‘ وطن عزیز میں امن کے قیام ‘ عوام کو مسائل سے نجات دلانے اور شہریوں کو آئینی تحفظ کی فراہمی کیلئے باہمی اختلافات دور کرکے یکجا ہوجائیں اور متفقہ و باہمی مشاورت کے بعد ایک ایک کرکے ایشوز کا انتخاب کریں اور ان کے ہل کیلئے قوم کو یکجا کریں تو یقینا عافیہ صدیقی کا ہی نہیں بلکہ ڈرون حملوں ‘ لال مسجد مظالم اور ملالہ حملے کے معاملات ومسائل کو سمیت ہر مسئلے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک مضبوط اسلامی ‘ جمہوری و فلاحی مملکت کا روپ دیکر عوام کو پر امن’ ترقی یافتہ ‘ آسودہ اور اطمینان بخش اسلامی معاشرہ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
ملالہ کیلئے کی جانے والی قوم کی دعائیں رنگ لے آئی ہیں اور اس کی حالت اب خطرے سے باہر آگئی ہے ‘ افواج پاکستان نے مینگورہ میں چھاپے مارکر ایک عورت سمیت چار مشتبہ ملزمان کو ملالہ پر حملے کے شبہ میں گرفتار کرلیا ہے جبکہ 70سے زائد افراد پوچھ گچھ کیلئے زیر حراست لئے گئے ہیں جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اب اس کے بچ جانے کی اطلاعات پر اس پر دوبارہ حملہ کرنے اور اور گولی مارنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ملالہ کیلئے توصیفی مہم چلانے کے جرم میں کراچی ‘ لاہور ‘ اسلام آباد ‘ رالپنڈی اور پشاور میں ذرائع ابلاغ کے دفاتر پر بھی حملے کے ذریعے میڈیا کو ملالہ کو شہرت و عزت دینے کی سزا دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ملالہ کی ڈائری بھی دستیاب ہوچکی ہے جسے سوشل میڈیا پر پھیلانے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ”مکئی ” کے نام سے فارن میڈیا میں لکھی جانے والی ڈائری در اصل ملالہ کے والد اسے لکھوایا کرتے تھے اور اس ڈائری کے جو اقتباسات سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے ہیں ان سے تو ی لگتا ہے کہ ملالہ سوات کے ماحول ‘ طالبان یا بد امنی و دہشت گردی سے نہیں بلکہ مشرقی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اقدار و طرز معاشرت سے خائف تھی ‘ وہ اسے پردے اور برقعہ سے شدید بفرت تھی اور داڑھی والے افراد کو وہ فرعون قرار دیتی تھی جبکہاس کی علم دوستی شعور و آگہی سے نہیں بلکہ محض انگریزی زبان سے تھی اور اسے تعلیم حاصل کرنے کا نہیں بلکہ انگریزی زبان سیکھنے کا جنون تھا اور وہ اپنے تمام اساتذہ سے محبت یا ان اکا انتظار و احترام نہیں بلکہ صرف اپنی انگریزی کی ٹیچر سے پیار کیا کرتی تھی۔
Malala Yousafzai Pray
سوشل میڈیا پر دستیاب ملالہ اور اس کے والدین کی امریکی سفیر رچرڈ ہالبروک اور امریکی فوجی افسران کے ساتھ بنائی گئی مختلف میٹنگز کی تصاویر اس بات طالبان کی اس بات کو تقویت دے رہی ہیں کہ ملالہ اور اس کے والدین شہرت و پیسے کی خاطر امریکی ایجنٹ بن گئے تھے اور وہ امریکی ایماء پر سوات میں ایسے اداروں کی داغ بیل دالنا چاہتے تھے جہاں تعلیم کے نام پر اسلام دشمن سرگرمیوں اور مشرقی آداب کے خلاف مہم چلائی جائے اور روشن خیالی و ترقی پسندی کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جائے اور اس مقصد کیلئے ملالہ کے اکاؤنٹ میں بیرون ممالک سے بھاری رقوم بھی ٹرانسفر ہونے والی تھی ۔ اللہ عالم بے الصواب کے حقائق کیا ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس میں کسی کو بھی بے حیائی پھیلانے یا تعلیم کے نام پر مشرقی آداب کی جگہ مغربی خرافات کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ ملالہ ہی کیوں نہ ہو! مگر اس کا یہ بھی مقصد نہیں ہے کہ اگر کہیں کوئی شخص غلطی کرے تو ہر فرد خود منصف بن کر اسے سزا دینا شروع کردے یہ بھی اسلامی اصول اور پاکستانی معاشرت کے خلاف ہے۔
اسلئے نہ توملالہ پر طالبان کے حملے کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی شہرت و دولت کے لالچ میں امریکی ایماء پر پاکستان میں تعلیم کے نام پر مغربیت اور بے حیائی کو فروغ دینے کی کسی بھی کوشش یا سازش کی حمایت کی جاسکتی ہے اسلئے ہم تو صرف یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ ہمیں گمراہی سے بچائے اور حق کی جانب لیکر جائے !حکمرانوں کو عوام کو تحفظ فراہم کرنے ‘ اداروں کو اپنا فریضہ خوش اسلوبی اور دیانتداری سے انجام دینے اور عوام کو متحد و یکجا رہنے کی توفیق عطا فرمائے ! کیونکہ اتحاد ہی وہ ہتھیار ہے جس سے نہ صرف جابر و ظالم کا ہاتھ روکا جاسکتا ہے بلکہ ہر سازش کا بھی قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔